احسن ایاز نے بھارتی حریف کو ہرا کر امریکہ میں کولی ول اوپن سکوائش چیمپئن شپ جیت لی۔
دنیا میں جہاں کہیں سکوائش کا ذکر ہوتا ہے‘ ہو گا یاہوتا رہے گا‘ وہاں سب سے پہلے پاکستان کے نامور سکوائش کے کھلاڑیوں کا نام لیا جائیگا۔ عالمی سطح پر جن کھیلوں میں پاکستان کا ڈنکا بجتا تھا‘ ان میں ہاکی اور سکوائش سرفہرست تھے۔ روشن خان‘ ہاشم خان‘ جہانگیر خان‘ جان شیر خان‘ اطلس خان اور کس کس کا نام لیں‘ ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا پاکستان کے تفاخر والے تاج پر جگمگاتا نظر آتا ہے۔ ان میں جہانگیر خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ طویل عرصہ فاتح عالم رہے‘ ان شاندار فتوحات پر طویل حکمرانی کی۔ ان کی عالمی سطح پر پذیرائی اس طرح کی گئی کہ انہیں عالمی سطح پر ہزار سال کا سب سے بڑا سکوائش پلیئر قرار دیا گیا جو ان کیلئے اور پاکستان کیلئے ایک اعزاز ہے۔ پھر کچھ عرصہ قبل تک سکوائش کی دنیا میں ایک وقفہ آیا ہمارے کھلاڑی موجود تھے مگر فاتح کا تاج دوسرے مملالک کے کھلاڑی لے کر جاتے رہےہ۔ اب گزشتہ سال پاکستان کے کھلاڑی حمزہ خان نے 37 سال بعد سکوائش کے میدان میں فاتحانہ انٹری کی اور جونیئر سکوائش میں مصر کے محمد زکریا . کو شکست دی. اب گزشتہ روز ایک اور اچھی خبر سکوائش کے میدان سے یہ ملی ہے کہ امریکہ کے شہر ٹیکساس میں کولی ول اوپن سکوائش میں پاکستان کے احسن ایاز نے فائنل میں بھارت کے یاش بھارگوا کو ایک تین سے ہرا دیا۔ یہ اس سال احسن ایاز کی پانچویں فتح ہے ۔یعنی یہ پانچواں ٹائٹل انہوں نے اپنے نام کیا ہے۔ امید ہے کہ احسن ایاز اور حمزہ خان کی فتوحات کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا اور ایک بار پھر سکوائش کے میدان میں پاکستان کا نام جگمگاتا رہے گا۔ صرف کرکٹ ہی سب کچھ نہیں‘ باقی کھیلوں میں بھی اگر سرپرستی ملے تو ہمارے کھلاڑی بڑے سے بڑا کام سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور سچ کہیں تو کھیل کوئی بھی ہو‘ جہاں ہم بھارت کو شکست دیتے ہیں‘ وہ کھیل و کھلاڑی وہ لمحہ پوری قوم کیلئے مسرت کا باعث ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی بات چیت کو بےتاب ، حکومت کی طرف سے بے نیازی کا مظاہرہ۔
غالب نے بھی ایسی ہی کسی صورتحال پہ کہا تھا:
ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے
اس طرح یہ بھی کیا خوب کہا گیا تھا جو آجکل ہماری سیاسی صورتحال پر مکمل فٹ آتا ہے
ایک سب آگ‘ ایک سب پانی‘ دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں۔اب یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت میں سے کون آگ ہے اور کون پانی۔ خدا خدا کرکے ہاں ہاں‘ ناں ناں کی تکرار کے بعد کسی بھی سطح پر ہی سہی‘ کسی بھی درجہ کی قیادت کے ذریعے بھی اگر سلسلہ جنبانی شروع ہو ہی گیا ہے تو اس پر بھی طرح طرح کے بیانیئے دیکر نجانے کیوں کنفیوژن پھیلایا جا رہا ہے۔ ابھی تو دِلیّ بہت دور ہے تو دلی کس کی ہے‘ یہ بحث کیوں۔ اب پہلے کوئی مذاکرات سے انکاری تھا‘ کوئی کرنا چاہتا تھا اور اب کوئی مذاکرات کرنا چاہتے ہے اور کوئی اس سے انکاری ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تو پھر یہ”ہنگامہ اے خدا کیا ہے“۔ یہ اچانک پھر تصدیق و تردید کی باتیں کیوں؟ کیا یہ ہی بڑی بات نہیں کہ پہلے بات بات پر ناں کرنے والے اب ملاقات کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ”یہ ملاقات اک بہانہ ہے‘ پیارا کا سلسلہ پرانا ہے“۔ تو پھر چلیں سب خوش دلی کے ساتھ یہ پیار و محبت کا کھیل بھی دیکھ لیں۔ نفرت اور جنگ کا کھیل بھی بہت دیکھ لیا۔ اس میں سوائے انتشار کے اور کچھ سامنے نہیں آیا۔ حکومت کے بہت سے سخت گیر موقف رکھنے والے دانت پیس کر منفی ردعمل دے رہے ہیں تو اپوزیشن میں بھی بہت سے منفی اور بہت سے مثبت ردعمل دے کر عوام کو پریشان کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے لگتا ہے اب کچھ دن یہ تماشا چلے گا تاکہ لوگوں کو ذہنی طور پر مذاکرات کے حوالے سے یا اچھی یا بری خبر سننے کیلئے تیار کیا جاسکے۔ بقول مرزا نوشہ۔
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی
اگر بات کرنی ہے تو شرمندگی کیسی‘ کھلے دل سے ہونی چاہیے۔
پنجابیوں کو مارنے والے ناراض بلوچ نہیں‘ دہشت گرد ہیں ،‘ سرفراز بگٹی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک بڑی اچھی بات کی ہے۔ امید ہے ملک کے لوگ اس پر کان دھریں گے اور نفرت کی سیاست کو ختم کرکے صوبائیت اور لسانی تقسیم کے اس گھناﺅنے کھیل سے باہر نکل آئیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھی‘ بلوچ‘ پنجابی اور پٹھان‘ یہ سب ایک کتاب ایک خدا اور ایک رسول کو ماننے والے ہیں۔ یہ سب پاکستانی ہیں۔ اگر بھائیوں میں کبھی اختلاف ہو بھی جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں۔ حقیقی سوچ یہی ہے کہ بلوچستان میں افسوسناک واقعہ ہوا اس کو بلوچ‘ پنجابی کے نام پر نفرت کا رنگ نہ دیا جائے۔ واقعی یہ دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے۔ یہ گمراہ مسلح گروپ صرف اور صرف پاکستان کے دشمن ہیں ورنہ اس وقت لاکھوں بلوچ پنجاب میں آباد ہیں‘ لاکھوں بلوچ سندھ میں آباد ہیں‘ وہ بھی آج سے نہیں صدیوں سے۔ انہیں کبھی کسی پنجابی سے‘ سندھی سے مسئلہ نہ ہوا۔ اس طرح بلوچستان میں بلوچ اور پٹھان صدیوں سے آباد ہیں۔ ان میں بھی کبھی لسانی تعصب یا نفرت کی ایسی آگ نہیں لگی۔ یہ جو مسلح دہشت گرد ہیں‘ یہ صرف دہشت گرد ہیں۔ پشتون یا بلوچ نہیں۔ کروڑوں بلوچ اور پٹھان محب وطن ہیں اور اپنے وطن پر ہر لمحے مرمٹنے کو تیار رہتے ہیں۔ جبھی تو یہ غیرملکی ٹکڑوں پر پلنے والے دہشت گرد جہاں موقع ملتا ہے صرف اور صرف پاکستانیوں کو بلاتفریق مذہب و ملت‘ زبان و نسل کا نشانہ بناتے ہیں۔ کہیں مذہب کے نام پر کہیں صوبائیت کے نام پر بم دھماکوں یا خودکش حملوں کے بعد اب شناختی کارڈ چیک کرکے مار رہے ہیں۔ یہ لوگ انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ یہ سب درندے اپنے آقاﺅں کی خوشنودی کیلئے پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ کیوں وہ جانتے ہیں جب تک یہ چاروں بھائی متحد ہیں‘ دشمن کبھی اپنے مکروہ مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
قومی ہاکی ٹیم کے3 کھلاڑیوں اور فزیو تھر نے پولینڈ میں سیا سی پناہ لے لی ،ایک ریسلر کو پابندی کاسامنا۔
ابھی خدا خدا کرکے کھیلوں کے میدان سے ٹھنڈی ہوائیں آنے لگی تھیں‘ خوشی کی خبریں مل رہی تھیں اور مارشل آرٹ‘ باکسنگ‘ ویٹ لفٹنگ‘ ہاکی‘ والی بال‘ میں بھی پاکستانی کھلاڑی عالمی سطح پر نام کمانے لگے ہیں۔ قوم خوشی سے نہال ہو رہی تھی کہ نجانے کس کی نظر ہماری خوشیوں کو لگ گئی۔ اطلاعات کے مطابق کامن ویلتھ کے گیمز میں باکسنگ کے مقابلوں میں ہمارے مایہ ناز ریسلر علی اسد نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ ابھی اس خوشی کی خبر کا مزہ بھی ختم نہ ہوا تھا کہ ان کا ڈوپنگ ٹیسٹ مثبت آنے کی رپورٹ نے ساری خوشی پر پانی پھیر دیا۔ اب ان کی یہ قوت بخش ادویات کے استعمال کی وجہ سے چار سال تک پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ٹیسٹنگ ایجنسی کے مطابق انہیں جواب اور وضاحت کیلئے کہا گیا تھا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جس پر بعد ازاں ان پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ علی اسد کو چاہیے تھا کہ وہ اپنا حق جواب استعمال کرتے۔ اسکے علاوہ دوسری دکھ دینے والی خبر یہ کہ ہاکی کے تین کھلاڑی اور فزیوتھراپسٹ ملک چھوڑ کر پولینڈ میں پناہ گزیں ہو گئے ہیں۔ آج تک یہ تو سنا تھا کہ پی آئی اے کی ایئرہوسٹسیں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور کینیڈا جا کر روپوش ہو جاتی ہیں۔ اب ان کھلاڑیوں نے بھی یہ نیا کٹا کھول دیا ہے۔ جسے دیکھو یورپ اور امریکہ جا کر اپنا مستقبل بنانے کے چکروں میں ہیں۔ جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ اب چن کھلاڑیوں نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا ہے وہ اس ٹیم میں شامل تھے جنہوں نے مقابلوں میں حصہ لیا تھا، ٹیم نے اعلیٰ کارکردگی دکھائی تھی اور 13 سال بعد فائنل تک رسائی حاصل کی تھی۔ اب پولینڈ جا کر 20 سے 22 برس کی عمر کے ان تین کھلاڑیوں مرتضیٰ یعقوب‘ احتشام اسلم پر ہاکی فیڈرشن نے تاحیات پابندی لگا دی ہے۔ اب وہ کبھی گرین شرٹس پہن کر ملک کی نمائندگی نہیں کر سکیں گے۔
منگل‘ 27 صفر المظفر1446ھ ‘ 3 ستمبر 2024
Sep 03, 2024