یادش بخیر! سب دوست باغ جناح کے اوپن ایئر ریسٹورنٹ میں جمع تھے اور ہمارے سامنے صادقین کے لے پالک بیٹے انور اقبال بیٹھے صادقین کے قصے سنا رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صادقین نے کس طرح ایک ”بادشاہ وقت“ کو اپنے کم کھانے اور زیادہ پینے“ کے بارے میں بتایا تھا اور دوبارہ بے نیازی سے کام میں اس طرح منہمک ہو گئے تھے جیسے وہاں وہ اور انکے برش کے سوا کوئی نہ ہو۔
انور اقبال نے یہ بھی بتایا کہ انہیں ایک بار کسی کام سے پڑوسی ملک جانا پڑا تو صادقین نے ایک سطری رقعہ اپنے دستخط کے ساتھ ان کے ہمراہ کر دیا تھا جس پر لکھا تھا ”انور میرا بیٹا ہے‘ راستے والوں سے گزارش ہے تعاون کریں“ اور اس یک سطری رقعہ پر ہی ”راستے والوں“ نے دیدہ و دل فرش راہ کرکے بقول غالب پانی اور آگ کو یکجا کر ڈالا تھا۔ مجھے یاد ہے انہوں نے وہ رقعہ بھی ہمیں دکھایا تھا جسے وہ زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ قرار دیکر سینے سے لگائے پھرتے تھے صادقین سے ملاقات تو نہیں کہنا چاہئے زیارت کا موقع ملا تو ہمارے لڑکپن میں لتھڑے معصوم سوال سن کر وہ بہت مسکرائے تھے اور جواب میں صرف اپنے خطاطی والے ہاتھ کی انگلیاں اوپر اٹھا دی تھیں جو عام لوگوں کی طرح سیدھی ہونے کی بجائے اللہ کا نام بناتے ہوئے ”اک الف مینوں درکار“ کا ورد الاپ رہی تھیں ....!
ہمارے عہد کے بہت بڑے لکھاری مستنصر حسین تارڑ نے حال ہی میں ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ”باتاں ملاقاتاں“ رکھا ہے۔ اس کتاب کا پہلا مضمون ہی صادقین پر ہے۔ تارڑ صاحب نے لکھا ہے کہ صادقین نے رباعیات بھی کہیں (نہ صرف کہیں بلکہ اپنے فن مصوری کی طرح بہت خوب کہیں) اور ان رباعیات کو مصور کرکے ایک کتاب شائع کی تھی جو اب کہیں دستیاب نہیں ہو رہی.... تارڑ صاحب کا یہ جملہ پڑھ کہ میرا سر فخر سے قد آدم جتنا بلند ہو گیا کہ وہ کتاب کئی برس سے میری لائبریری کی زینت ہے۔ اس کے سرورق پر لکھا ہے ”رباعیات صادقین نقاش 1390 ہجری“.... یقیناً میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہیں یہ کتاب انور اقبال نے خود دی تھی۔ ان کے بیگ میں ایک نسخہ کسی اور کیلئے پڑا تھا لیکن میرا تجسس اور کتابوں سے محبت دیکھ کر وہ اپنے آپ کو روک نہ پائے اور وہ کتاب میرے سپرد کر دی۔
کوئلوں سے دیواروں پر نقش و نگار بناکر دنیا کے بڑے آدمیوں میں سے ایک ہو جانا آسان نہیں ہوتا۔ یہ وہ راہ ہے جس میں اکثر سفریوں کا اسباب لٹ جاتا ہے اور وہ کوئلوں کی دلالی سے منہ الگ کالا کر بیٹھتے ہیں لیکن صادقین نے کوئلوں سے وہ اجالا تخلیق کر ڈالا جو آج بھی روز روشن کی طرح جگمگا رہا ہے۔
راستوں، گلیوں اور محلوں کی دیواریں ہی صادقین کا استاد تھیں وہ کوئلوں سے ان پر نقش بناتے اور مٹاتے ساری دنیا کو مصوری اور خطاطی سکھا گئے خود اپنے استاد بن کر دنیا کو کچھ ایسا نیا دکھا گئے جو ان سے پہلے کوئی نہ دکھا سکا، انہی کی ایک رباعی ہے
فن ہے تخلیق و اختراع و ایجاد
نقلِ تقلید سے میں یوں ہوں آزاد
خطاطی میں شاعری میں، نقاشی میں
آپ اپنا ہوں شاگرد، خود اپنا استاد
بچپن میں فقیر بادشاہوں کی بہت سی کہانیاں ہم نے بھی سن رکھی ہیں جو ہفت اقلیم یعنی بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک ہونے کے باوجود ”بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب“ پر عمل کرتے ہوئے گلیوں گلیوں پھرا کرتے تھے اور جو ان فقیر بادشاہوں سے ذرا سی مروت، ذرا سی محبت جتا دیتا تھا یہ اس پر ہیرے جواہرات کی بارش کرکے یوں آگے بڑھ جاتے تھے جیسے کچھ دیا ہی نہ ہو۔ فقیر بادشاہ یقیناً ان جیسے ہی ہوا کرتے ہوں گے بس ایک فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ صادقین ”تماشائے اہل کرم“ دیکھنے کیلئے فقیر نہیں بنتے تھے بلکہ انہیں اس سے بالکل بھی غرض نہیں ہوتی تھی کہ ان کی عطا کردہ ”خلعتوں‘ کا کیا حال ہوا اور کس نے کتنے میں بیچ کر کتنے دام کما لئے، دوسرا فقیروں کا بھیس نہیں بدلا کرتے تھے بلکہ انہوں نے ساری عمر فقیری میں گزار دی۔
بڑے بڑے شاہکار بناتے اور ایک جھٹکے میں مانگنے والے سے کہہ دیا کرتے تھے کہ ”لے جائیں سب اور بس کچھ نہیں“ انہوں نے اپنے فن پاروں کو کبھی روزگار کا ذریعہ نہیں بنایا مگر ان کے شاہکاروں سے کئی لوگوں کے چولہے پوری آب و تاب سے جلتے رہے۔ بقول ساغر صدیقی
فکر ساغر کے خریدار نہ بھولیں گے کبھی
ہم نے اشکوں کے گہر تھے جو بنائے پتھر
لیکن ایسا تبصرہ یا شعر صادقین کے بارے میں مناسب نہیں ہوگا۔ انہوں نے اشکوں کے گہر پتھر نہیں بلکہ ہیرے بنا دیئے۔انہیں خود بھی اس کا احساس تھا اس لئے اپنی ذات پر یہ رباعی لکھ ڈالی۔
دنیا میں ہیں بے شمار، بے حد نقوی
گن سکتے نہیں اتنے ہیں نقوی
اپنے ہی نام کے ایک تم ہو
اے سید صادقین احمد نقوی
تارڑ صاحب نے صادقین کی دریا دلی سے متعلق ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں فن پاروں کی نمائش کے دوران کس طرح ایک عرب شیخ نے انہیں ایک خطاطی کی منہ مانگی قیمت دینے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ شیخ ہر روز ان کی وہ تخلیق دیکھنے آتا اور للچائی نظریں گاڑے رکھتا۔ نمائش کے آخری روز صادقین نے اسے قریب سے بلایا اور اس درویش نے بادشاہوں کے انداز میں پوچھا ”مانگ کیا مانگتا ہے تو عرب شیخ نے اسی شاہکار کی طرف اشارہ کیا۔ ”بادشاہ“ نے بڑی فراخدلی سے عطا کر دیا۔ شیخ نے قیمت دریافت کی تو فرمایا ہماری تخلیقات کی کوئی قیمت تھوڑا ہی ہوتی ہے بس اٹھا لو اور جاو¿.......
سوچتا ہوں کہ اتنے بڑے آدمی جسے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تمام فن شناس جانتے اور مانتے ہیں ہم ان کیلئے اپنے ملک یا کم از کم لاہور میں ایک کونا بھی تعمیر نہ کر سکے بلکہ ٹولنٹن مارکیٹ (انارکلی والی ) میں بنایا گیا ایک ”کونا“ بھی ”اشد قومی ضرورتوں“ کے باعث توڑ ڈالا۔ معلوم نہیں ایسی قومی ضرورتوں کو اور کتنوں کو لہو چاہئے یہ بھی نہیں جانتے کہ کتنی آہوں سے ان کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگا۔
ہم کیسے لوگ ہیں جو اپنے بڑے لوگوں کے رتبے کا گلا اپنے ہی ہاتھ سے دبانے میں لگے رہتے ہیں اور ہمیں ملال تک نہیں ہوتا۔ کیا صادقین اور ان جیسے دوسرے گراں قدر لوگ جو ہماری دھرتی کا حسن ہیں، کی یادیں اسی طرح حرف غلط کی طرح مٹا دی جائیں گی۔ کیا ان کی کوئی یادگار کوئی نشان باقی نہیں رہنے دیا جائے گا۔
ارباب اختیار، تمام اداروں اور ہم سب کو خواب غفلت سے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ صادقین ایک عرصہ تک عجائب گھر لاہور کے ایک بوسیدہ سے پلستر اکھڑے کمرے میں ”مبحوس“ رہ کر عجائب گھر کے حسن کو نقش و نگار سے دوبالا کرتے رہے ہیں۔ انکی یاد میں وہیں ایک گیلری بنا دی جائے۔ یا پھر اس سے ملحقہ ٹولنٹن مارکیٹ میں ان کا کونا ہی بحال کر دیا جائے جہاں اس عظیم فنکار کی روح روزانہ اپنے مداحوں سے کہہ سکے کہ میری مصوری کے نظارے لوٹ لیں ان کی کوئی قیمت تھوڑا ہی ہوتی ہے۔ وہ فقیر منش اور درویش آدمی تھے زیادہ جگہ کی فرمائش بھی نہیں کرینگے۔
ارباب اختیار یہ اچھی طرح جان لیں کہ جس دور میں فقیروں کی کمائی لٹ جائے اس عہد کے سلطان سے اس سے بڑی بھول اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
صادقین ہی کی ایک رباعی پر اختتام کرتا ہوں۔
جو نقش تھے پامال بنائے میں نے
پھر الجھے ہوئے بال بنائے میں نے
تخلیق کے قرب کی جو کھینچی تصویر
پھر اپنے خدوخال بنائے میں نے