تو آخر ایسا کیوں ہے کہ وہ جو بھی کہے اس کے چاہنے والے مان لیتے ہیں۔ وہ جو کرے وہ اسے ٹھیک کہتے ہیں۔ وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنادے تو بھی غلط نہیں ٹھہرتا۔ “ماننا تو پڑے گا “کے عنوان سے ایک گزشتہ تحریر میں اس پر تفصیلی بات ہوچکی ہے لیکن ایسا کیوں ہے اس پربات ہونا باقی رہ گئی تھی۔ ایسا راتوں رات ہوا نہ ہوسکتا تھا نہ وہ خود یہ سب کرسکتا تھا۔ یہ تو ان کا کمال ہے جنہیں اس کی ضرورت تھی جنہیں اس کا کندھا درکار تھا ،وہ کوئی اور بھی ہو سکتا تھا لیکن اس وقت وہی نگاہ یار میں اس قابل ٹھہرا، تاریخ سچ سامنے لے آتی ہے اور ہمارے دور کی تاریخ تو کچھ زیادہ بے رحم ہوچکی ہے۔ وہ سچ سامنے لانے میں زیادہ انتظار نہیں کرواتی۔دہائیوں کا انتظار نہیں چند ہی سال بہت کچھ سامنے لے آتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں سیاسی میدان میں جو ہوتا رہا اب کھل کر سامنے آچکا ہے اور آتا جارہا ہے۔ کچھ سابقہ اہم شخصیات کے انٹرویوز، بیانات اعترافات کچھ اہم لوگوں کی تحریریں دیکھ لیں اور پھر ان نقطوں کو ملائیں تو کچھ ایسی ہی تصویر بنے گی۔
ہمارے یہاں بھی دنیا کی اکثر بڑی جمہوریتوں کی طرح دو جماعتیں ہی باری باری برسر اقتدار آتی رہیں اور پھر تجربہ ہوا تیسری جماعت کا، پرویز مشرف کے دور میں ملک کی انہی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ملک کے دو سب سے بڑے سیاسی رہنما جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے یہی جماعتیں ماضی میں ایک دوسرے سے دست و گریبان رہیں اور ایک دوسری کیخلاف اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوتی رہیں لیکن پھر 2006ءمیں لندن میں انہی دو جماعتوں کی قیادت مل بیٹھی اور ایک معاہدہ کرلیا جیسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا۔ ماضی کی غلطیوں پر ایک دوسرے سے معذرت اور آئندہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے کا عہد، اس میثاق جمہوریت کے اہم جزو تھے۔ ایسے میں ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو ضرورت پڑ گئی ایک تیسری قوت کی جسے ان دونوں کے مقابلے میں لاکھڑا کیا جائے، نگاہ ٹھہری گزشتہ کئی سال سے اپنی سیاسی جماعت کو کھڑا کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمران خان پر، جن کی سب سے بڑی خصوصیت اور اہلیت ان کا کرکٹنگ ہیرو کا درجہ سمجھا گیا۔ پھر ان کی پارٹی کو کھڑا کرنے کا ذمہ ”کسی اور “نے لے لیا،لیکن اس کیلئے ضروری تھا کہ عمران خان کو ایک بڑے سیاسی لیڈر کا درجہ دلایا جائے اور یہ اسی صورت ممکن تھا جب ان کے مخالف بڑے سیاستدانوں کو عوام کی نظروں میں ناقابل قبول بنایا جائے اور پھر خان صاحب کو مسیحا بنا کر ہیش کیا جائے۔ یہاں کام آیا ہٹلر کے مشیر خاص گوبلز کا فارمولا،یعنی آیک بات کو اتنا دہراو¿ کے وہ سچ لگنے لگے لوگوں کے ذہنوں میں ڈالا گیا کہ باقی سارے سیاستدان چور ڈاکو اور نااہل ہیں ایک عمران خان ہی ہیں جو ان تمام خامیوں سے مبرا ہیں وہی اس ملک اور اس قوم کو اس مقام پر لے جاسکتے ہیں جہاں اس قوم کو اصل میں ہونا چاہئے۔ اس کےلئے ٹارگٹ نوجوانوں کو کیا گیا۔
عمران خان کو اپنے ہم عمر باقی سیاست دانوں کے مقابلے میں نوجوانوں کا واحد لیڈر بنا کر پیش کیا گیا اور ساتھ ساتھ نئی نسل کو باقی سیاستدانوں اور سیاسی نظام سے متنفر کیا گیا۔ یہ سب کام اس تسلسل کیساتھ ہوتا رہا کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران بلوغت کی عمر میں قدم رکھنے والے نوجوانوں نے اس کے سوا کچھ سنا تھا نہ سننے کو تیار تھے۔
عمران خان کی سپورٹ ایک فیشن بنادیا گیا یا پھر یوں کہیں اسٹیٹس سمبل۔ اور یوں ایک نسل تیار ہوگئی جو عمران خان کے سوا کچھ جانتے ہیں اور نہ ہی مانتے ہیں۔اس ملک میں کچھ اچھا بھی ہوتا رہا وہ یہ نہیں جانتے اور جو برا ہوتا رہا اس کے ذمہ دار صرف اور صرف ان کے سیاسی مخالفین ہیں۔ سیاسی مخالفت کو نفرت میں بدلا گیا ساری توجہ مخالفین کو گرانے اور عمران خان کو واحد لیڈر بنانے پر لگادی گئی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے چاہنے والوں کی نظروں میں لیڈر سے بھی اوپر کی کوئی شخصیت بن گئے اور یہی اب اس کھیل کا سب سے خطرناک پہلو ثابت ہورہا ہے۔ اس سارے عمل میں اس بات کو تو کسی نے دیکھا ہی نہیں کہ اتنی توقعات بنانے کے بعد ایک شخص کو اقتدار دے دیا جائے گا تو پھر آگے کیا ہوگا؟ یہی وجہ بنی درحقیقت اس پروجیکٹ عمران خان کی اصل ناکامی کی۔ اور پھر اسٹیبلشمنٹ کی صفوں کے اندر بھی اس ناکامی کا احساس پیدا ہوا تو اسٹیبلشمنٹ کی نئی قیادت نے میڈیا پر آکر خود کو سیاست سے الگ رکھنے کا اعلان کیا۔ لیکن وہ نسل جو تیار ہوچکی تھی وہ تو اپنی جگہ موجود تھی اور اب تو ان کے پاس سوشل میڈیا کا خوفناک ہتھیار بھی آچکا تھا۔ لیکن جو سوچ بنانے میں سالوں لگے وہ دنوں یا مہنیوں میں تو ختم ہونے سے رہی،اب وقت تو لگے گا۔ لیکن اگر اس سب سے ملک کے سیاستدان اور طاقتور حلقے مستقبل کیلئے سبق سیکھ لیتے ہیں تو یہی اس کا ایک خوش آئند اور مثبت پہلو ٹھہرایا جاسکے گا۔