جناب سیدنا امام حسن حد درجہ سخی اور عفو ودرگزر کرنے والے حلیم و برد بار تھے۔کوئی بھی سائل آپ کے در اقدس سے خالی نہ جاتا یہاں تک دس ہزار درہم تک بھی صدقہ کر دیتے آپ نے ایک مرتبہ اپنا پورا مال اور ایک مرتبہ آدھا مال راہ خدا میں دیا (ابن عساکر)آپ نماز فجر کے بعد مسجد میں بیٹھ جاتے اور لوگوں سے دین و شریعت کے متعلق گفتگو فرماتے انکی رہنمائی کرتے انکے سوالوں کے جواب ارشاد فرماتے اور چاشت کے نوافل ادا کرکے گھر تشریف لے جاتے آپ نے قریب پچیس بار پیدل حج کیے۔آپ اکثر بارگاہ خدا وندی میں گریہ کرتے اور جب وضو کرتے تو آپکے جسم کا رنگ خشیت الہٰی سے بدل جاتا اور نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کانپنے لگتے۔حضرت سیدنا امام حسنؓ حکمت و معرفت کا بحر بیکراں تھے علم وحکمت کی دولت آپکو اپنے نانا رحمت عالم معلم انسانیتؐ اور بابا باب مدینتہ العلم علی ابن ابی طالبؓ سے وراثت میں ملی آپ جب بات کرتے تو علم و حکمت و دانائی کے موتی بکھیر دیتے آپ فرمان عالی شان ہے کہ تین برائیاں لوگوں کو تباہ کر دیتی ہیں۔تکبر۔حرص اور حسد تکبر سے دین مٹ جاتا ہے اور حرص انسان کی جان کا دشمن ہے۔ حسد انسان کے لیے برائی کا پیغام لانے والا ہے۔آپ پانچویں خلیفہ راشد ہیں آپ کی خلافت کا عرصہ بہت کم ہے مختلف روایات میں چھ ماہ اور پانچ دن آیا ہے آپ خاتم الخلفاء ہیں۔ایک دن حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا حسن و حسین کو اپنے بابا جان رسول کریم کے پاس لیکر آئیں اور عرض کیا انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں تو رسول کریم نے فرمایا کہ میرا بیٹا حسن میری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات و سخاوت کا۔
امیرالمومنین حضرت سیدنا امام حسن کی عظمت و بلندی کا اندزہ اس سے لگائیں کہ آپکی تربیت بچپن میں رسول پاک نے فرمائی آپ نے اپنے نانا جان کے کندھوں پر سواری کی۔ آپ اپنے نانا جان کی مبارک زلفوں سے کھیلتے آپ ؐکی داڑھی مبارک میں انگلیاں پھیرتے آپ ؐ جناب حسن کو منع نہ فرماتے۔ سیدنا امام حسن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امت کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا آپؐ کا فرمان گرامی ہے کہ حسن جنت کے جوانوں کا سردار ہے آپکے ساتھ اس فضیلت میں امام حسین بھی شامل ہیں۔آقا کریم کا ارشاد گرامی ہے کہ حسن اور حسین میرے دو پھول ہیں۔رسول خدا سے پوچھا گیا اہل بیت میں سے آپکو زیادہ محبوب کون ہیں تو آپنے فرمایا کہ حسن اور حسین اور پھر سیدہ پاک فاطمہ زہرا سے فرماتے کہ میرے بیٹوں کو بلاؤ جب حسن اور حسین آتے تو آپ انکو سونگھتے اور چومتے اور اپنے جسم اطہر سے لگا لیتے۔حضرت امام حسن نے بھی اپنے نانا رسول خدا کی تربیَت کا حق ادا کیا اور امت کے وسیع تر مفاد میں خلافت کے منصب کو چھوڑ دیا اور امت کو خونریزی سے بچا لیا اسی طرح امام حسین نے اپنے پیارے نانا کے دین و شریعت کی سر بلندی کے لیے کربلا میں وقت کے فاسق و فاجر یزید کی بیعت نہ کی اور اسلام کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔سیدنا امام حسن کی ذات قدسیہ امت کے لیے وحدت اور محبت کی علامت ہے آپکے افکار کردار کی پیروی ہمارے لیے باعث امن اور سکون ہے ۔مصلح امت سیدنا امام حسن صلح کے بعد گوشہ نشین ہو گئے۔آپ کوکئی بار زہر دلوایا گیا مگرجعدہ کے ذریعے دلوایا گیا زہر اسقدر شدید تھا کہ آپ کے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے اور آپ اٹھائیس صفر کو مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے جنت البقعی میں مدفون ہوئے۔