تل ابیب (نوائے وقت رپورٹ) اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کیلئے عوامی دباؤ بڑھنے لگا۔ تل ابیب سمیت ملک بھر میں لاکھوں افراد نے حکومت کیخلاف ہڑتال اور مظاہرے کئے۔ نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر بھی مظاہرہ کیا گیا۔ شرکاء نے غزہ جنگ بندی معاہدے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ حماس نے اسرائیلی وزیراعظم پر قیدیوں کی جان سے کھیلنے کا الزام لگا دیا۔ حماس رہنما خلیل الحیا نے کہا اسرائیل سے حقیقی مذاکرات نہیں ہو رہے، غزہ سے انخلاء تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ امریکہ غزہ کیلئے پیش کردہ تجویز سے پیچھے ہٹ گیا۔ اسرائیلی سفیر نے یرغمالیوں کی ہلاکت پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔ ہڑتال میں بزنس فورم، ٹیک کمپنیز، بار ایسوسی ایشن، ٹیچر یونین نے شرکت کی۔ غزہ میں مزید 19 فلسطینی شہید کر دیئے گئے۔ برطانوی حکومت کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی پر نظرثانی، اسرائیل کو ہتھیاروں کی فرخت کے 30 لائسنس معطل کر دیئے گئے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ بعض ہتھیار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں استعمال ہونے کا خدشہ تھا۔ ایسی اشیاء کی فروخت روک دی جو غزہ میں استعمال ہو سکتی ہیں۔ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں طیاروں اور ڈرونز کے پرزے بھی شامل ہیں۔ یہ فیصلہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت پر مکمل پابندی نہیں ہے۔ ایف 35 طیاروں کے پرزے پابندی کی فہرست میں شامل نہیں۔ نیتن یاہو نے اپنے شہریوں سے معافی مانگتے کہا میں یرغمالیوں کو زندہ واپس نہ لاسکا۔ امریکہ، مصر اور قطر کی غزہ جنگ بندی معاہدے کی کوششیں جاری ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے جنگ بندی معاہدے میں نیتن یاہو کی کوتاہی کا اعتراف کر لیا۔