بہت دنوں بعد نواز شریف متحّرک نظر آئے۔ معاف کیجئے گا، فقرے میں متّحرک کا لفظ غیر ارادی طور پر آ گیا، اسے حذف سمجھا جائے اور فقرے کو یوں پڑھا جائے کہ بہت دنوں بعد نواز شریف نظر آئے۔ ہاں، تو کہاں نظر آئے؟ مسلم لیگ ن کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں نظر آئے۔ اخبارات میں جو خبر آئی، اس میں بتایا گیا کہ نواز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی ان کوششوں کو سراہا جو وہ عوام کو ریلیف دینے کیلئے کر رہے ہیں۔ حسبِ حال ایک شعر یاد آ گیا
بھشا بھوش بھوشن بشارا
ڈغا ڈغ ڈگاڈگ ڈگڑ دھم ڈگارا
امید ہے آپ کو شعر کا مطلب سمجھ میں آ گیا ہو گا۔ ظاہر ہے، آپ نے پہلے فقرے، وہی ریلیف دینے کی کوششوں والے، کی سمجھ آ گئی تو یہ شعر تو پھر بھی اس سطر کے مقابلے میں کہیں آسان ہے اور اگر آپ کو اوّل الذکر فقرہ سمجھ میں نہیں آیا تو پھر شعر بھی آپ کے پلّے نہیں پڑا ہو گا۔
_____
مریم نواز کی حد تک تو بات پھر بھی قابل فہم ہے۔ مطلب یہ کہ قدرے قابل فہم۔ لیکن شہباز شریف کے ساتھ ریلیف کی کوششوں کو جوڑ کر نواز شریف نے چھوٹے بھائی کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ عوام کو ریلیف وغیرہ کی باتیں شہباز شریف کی افتاد طبع کے خلاف ہیں۔ کسی کی افتاد طبع کو طنز و مزاح کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ ویسے بھی شہباز شریف ان دنوں بہت مصروف ہیں، اپنے اور اپنے وی وی آئی پی ساتھیوں پر مراعات کی بارش کرنے اور ایلیٹ کلاس کیلئے قومی خزانے کے منہ کھولنے میں، ایسے مصروف آدمی کی توجہ ہٹانا ٹھیک بات نہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں وزیر خزانہ اورنگ زیب کا جوڑی دار بننے کے بعد شہباز شریف دو آتشہ ہو گئے ہیں۔ اورنگ زیب نے معاشی پالیسی کی ڈاکٹرائن ہی بدل دی ہے۔ رائج الوقت ڈاکٹرائن ہے کہ غربت ایک لعنت ہے، اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہمارے موصوف کی ڈاکٹرائن کچھ یوں ہے کہ غریب ایک لعنت ہے، لعنت کا خاتمہ ضروری ہے۔
برسبیل وضاحت ، اس ڈاکٹرائن کے مصنف پرویز مشرف تھے، عمران خان نے اس ڈاکٹرائن میں اضافی حواشی لکھے اور اورنگ زیب اس کے ’’مجدّد‘‘ کہلائے جا سکتے ہیں۔
_____
آدمی کو غیر متوقع خوشی ملے تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، حد سے زیادہ دکھ اور تکلیف کا سامنا ہو تو بھی آنسو آ جاتے ہیں یعنی دکھ اور خوشی کے بیج کا برزخ اتنا باریک ہے کہ عملاً رشتہ داری قائم ہو جاتی ہے۔
ایسا ہی معاملہ حس مزاح اور حس تکلیف رسانی کا بھی ہے۔ اب ملاحظہ فرمائیے، پچھلے ہفتے اعلان ہوا کہ بجلی کے بلوں میں اس ماہ بہت بڑا تاریخی ریلیف ملنے والا ہے جس سے عوام کو اتنی خوشحالی ملے گی کہ وہ سنبھال نہیں پائیں گے۔ اس اعلان کے دو روز بعد وہ تاریخی ریلیف آ گیا۔ یعنی ایک مہینے کیلئے بجلی کے نرخوں میں ایک روپے 90 پیسے فی یونٹ کمی کر دی گئی اور اس کے بعد کی، داستان کچھ یوں ہوئی کہ اگلے ہی دن فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی ایک روپے 87 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی۔
اب جمع تفریق کر لیجئے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کی منہائی کے بعد ریلیف کی مد میں تین پیسے فی یونٹ پھر بھی بچ گئے۔
گویا، آپ اگر 500 یونٹ بجلی ماہانہ استعمال کرتے ہیں تو آپ کو مبلغ پندرہ سو پیسے کی بحت ہو گی یعنی پندرہ روپے کی۔
اب آپ کی مرضی ہے کہ اس پندرہ روپے سے کوئی پلاٹ خرید لیں، قسطوں پر کار لے لیں، سولر پینل لگا لیں ، انعامی بانڈ خرید لیں ، سٹاک مارکیٹ میں شیئر خرید لیں یا عمرے پر نکل جائیں۔
حس تکلیف وہی اور حس مزاح کے پیچ کا برزخ آپ نے ملاحظہ فرما لیا۔
_____
پی ٹی آئی کے رہنما رؤف حسن نے کہا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک عمران خان کو رہا کرانے کیلئے بے چین ہیں لیکن وہ عمران خان کے اشارے کے منتظر ہیں۔
ایک فلمی سین یاد آ گیا۔ بڑ ہانکنے کے شوقین ایک نوجوان نے اپنے ساتھی سے کہا، مجھے روزانہ صدڑ کلنٹن (تب کلنٹن صدر تھے) کا دس بار فون آتا ہے مگر میں سنتا ہی نہیں۔ دوسرے نے مذاق اڑانے کے انداز میں پوچھا ، کیوں نہیں سنتے؟ جواب دیا، میرے پاس وقت ہی نہیں ہوتا، اتنا مصروف ہوں۔
تو یہی ماجرا رؤف حسن کے ولوے کا ہے۔ دنیا کے بہت سے ملک (بہت سے کیا مراد ہے، سینکڑوں ملک، ہزاروں ملک؟۔ انصاف انسائیکلو پیڈیا کے حساب سے تو شاید لاکھوں ملک) تیار کھڑے ہیں کہ عمران خان کی رہائی کے لیئیکردار ادا کریں۔ کردار کیا ادا کریں، اڑن کھٹولہ بھیجیں اور خاں کو اڑا کر لے جائیں لیکن کیا کریں، مجبور ہیں، جب تک خان اشارہ نہیں کرتے، وہ کچھ نہیں کر سکتے۔
اور خان اشارہ کیوں نہیں کرتے؟۔ خان کے پاس اشارہ کرنے کو وقت ہی کہاں، اتنے تو وہ مصروف ہیں۔ امت کی تقدیر بدلنے کیلئے رات دن منصوبہ سازی کرنے کے علاوہ
حیراں ہوں بکرا پھاڑوں کہ چیروں مرغ کو میں والا معاملہ بھی تو درپیش رہتا ہے۔
______
غیر معتبر اور بے وثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مرشدانی ساحرانی ان دنوں یہ معلوم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں کہ خان کو اوکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کا مشورہ کس نامہرباں نے دیا تھا۔
مشورے کا مقصد تو بظاہر نیک ہی تھا کہ دنیا بھر کو پتہ چلے گا کہ ایک ایسا شخص بھی یہ الیکشن لڑ سکتاہے جو سوا ڈیڑھ سال سے جیل میں بند ہے اور یوں خان کی گرفتاری کا مسئلہ اجاگر ہو گا۔
لیکن اجاگر تو کچھ اور ہی چیزیں ہو گئیں۔ جن کارناموں کی زیادہ شہرت صرف اندرون پاکستان تھی، انہیں عالمگیر شہرت مل گئی توشہ خانہ سے لے کر ملک .اور عارف نقوی کی منی لانڈرنگ میں خان کی شراکت کی خبریں بحث میں آ گئیں، احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ طالبان اور ٹی ٹی پی کی مدد گاری خاص طور سے برطانیہ میں زیر بحث ہے پھر وہ فقرہ کہ خواتین نازیبا لباس پہنیں گی تو مردوں کا کیا قصور۔ ایسا ہی فقرہ مرشد اوّل مشرف نے کہا تھا کہ خواتین ،خود عصمت دری کرانے کی شوقین ہوتی ہیں۔
پہلے ڈیلی میل نے ایک خبر چھاپی، پھر گارجین نے پے درپے دو جارحانہ قسم کے مضامین’’دامن گیان‘‘ اور ’’خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا‘‘ چھاپ دیئے۔