پاکستان کو امن و امان کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ملک میں اس حوالے سے بہت بے چینی پائی جاتی ہے۔ امن و امان کا ایسا ماحول ہم نے ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی اور کھربوں ڈالرز کا نقصان کرنے کے بعد حاصل کیا ہے۔ پاکستانیوں نے کئی برس دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا کرتے ہوئے، پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اور معذوری کا سامنا کرتے ہوئے گذارے ہیں۔ اتنی مشکلات کے بعد آج ایک مرتبہ پھر ہمیں ایسے حالات کا سامنا ہے کہ دشمن ہمارے امن پر حملہ آور ہے۔ بدقسمتی ہے کہ جن کے لیے ہم نے مشکلات کا سامنا کیا، تکالیف برداشت کیں، دنیا کی مخالفت مول لی وہی آج پاکستان کے لیے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ افغانستان کے لیے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں لیکن آج افغان حکومت پاکستان میں بدامنی پھیلانے والوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کی بار بار یاد دہانی، ناقابل تردید ثبوتوں اور شواہد کے باوجود افغان حکومت ان شرپسندوں، دہشتگردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔ کارروائی تو دور کی بات ہے افغان حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون بھی نہیں کر رہی اور ان کے ترجمان ثالثی کی باتیں کرتے ہیں لیکن امن دشمنوں کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ پاکستان نے ایسے امن دشمنوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور ان دہشتگردوں کو جہنم واصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کو ان شرپسندوں سے پاک کرنے کے مقصد میں پرامن اور نہتے شہری بھی جان قربان کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں جس بے دردری سے نہتے شہریوں کو نشانہ بنانا یہ ثابت کرتا ہے کہ دشمن بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ پاکستان میں عام شہری اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ افواج پاکستان کے افسران و جوان، رینجرز اور پولیس کے جوان بھی قیمتی جانوں کی قربانی پیش کر رہے ہیں۔ افواج پاکستان، رینجرز اور پولیس کی دن رات محنت رنگ لائے گی اور ایک دن ملک سے دہشتگردوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ گذشتہ دنوں میانوالی میں پنجاب پولیس نے خوارج دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا۔ قبول خیل پولیس چیک پوسٹ پر رات گئے خوارج کے دہشت گردوں نے راکٹ لانچرز اور ہینڈ گرنیڈ سے حملے کا پنجاب پولیس نے ایک بار پھر بھرپور قوت سے جواب دیتے ہوئے دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا۔ بارہ سے چودہ خوارجی دہشت گردوں نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر قبول خیل چیک پوسٹ پر راکٹ لانچرز اور ہینڈ گرنیڈز سے حملہ کیا۔ حملے میں دو پولیس جوان معمولی زخمی ہوئے ہیں جب کہ مفرور دہشتگردوں کی گرفتاری کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
ایسے حملوں کے پیچھے اور ان حملوں کو بیرون ملک بیٹھ کر معاونت کرنے والے دہشتگردوں کے گروہ کو افغان حکومت سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال ہونے کے مزید شواہد منظر عام پر آئے ہیں۔ افغان عبوری حکومت بارڈر کے پاس ان دہشتگردوں کو رکھتی ہے اور بوقت ضرورت انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ افغان عبوری حکومت کے ساتھ ان شرپسندوں کے گہرے روابط ہیں یہ طرز عمل خطے میں امن کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ فتنتہ الخوارج کے سرغنہ نور ولی اور مزاحم محسود افغانستان میں ہیں، دہشتگرد نور ولی اور مزاحم محسود کو افغانستان میں رہائش کیلئے سپیشل پرمٹ جبکہ نور ولی کو گاڑی اور اسلحے سمیت سرکاری افغان کارڈ بھی جاری کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نور ولی محسود کو دو ہزار پانچ ماڈل گاڑی اور دو بندوقیں رکھنے کی بھی اجازت ہے، دہشتگرد مزاحم کو بھی افغان عبوری حکومت نے اسلحہ اور گاڑی کا پرمٹ دیا ہوا ہے۔ افغان حکومت نے مزاحم کا سپیشل پرمٹ بائیس جنوری 2024 کو جاری کیا، دہشتگرد مزاحم کو جاری پرمٹ کابل اور افغانستان کے جنوب مشرقی علاقے میں قابل عمل ہے اور اسے گاڑی، ایک ایم فور، ایک ایم سکسٹین اور دو کلاشنکوف رکھنے کی اجازت ہے۔ افغان حکومت خارجیوں کو پاکستان میں دہشتگردی کیلئے سہولت کاری فراہم کر رہی ہے، فتنتہ الخوراج کے تربیتی مراکز اور لاجسٹک بیس افغانستان میں موجود ہے۔ چند روز قبل باجوڑ سے گرفتار ایک افغان دہشتگرد نے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کا اعتراف بھی کیا تھا۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کا پرانا مسئلہ برقرار ہے۔ اس جماعت میں سب کو ہر وقت بولتے رہنے کی عادت یا مجبوری ہے اور ہر دوسرا شخص خود کو عقل کل بھی سمجھتا ہے حالانکہ بروقت اور بہتر فیصلوں کے معاملے میں اس جماعت کا ریکارڈ سب سے خراب ہے۔ ان دنوں تو حالات زیادہ خراب ہیں کیونکہ بانی پی ٹی آئی قید ہیں اور کی عدم موجودگی میں ہر کوئی خود کو چیئرمین ہی سمجھتا ہے۔ اس لیے کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آتی جب کہ دستیاب قیادت میں رابطے کا شدید فقدان بھی پایا جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں ایک طرف سے مذاکرات کی آواز آتی ہے تو دوسری طرف سے کسی سے مذاکرات نہ کرنے کا بیان جاری ہوتا ہے۔ یہ مشاورت کی کمی نہیں تو اور کیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کہتے معافی تو ان سے مانگی جانی چاہیے، نو مئی کے معاملات آج تک پی ٹی آئی اپنی پوزیشن کلیئر نہیں کر سکی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک آزاد و خود مختار ملک میں رہتے ہوئے وہ خود کو حقیقی آزادی کے علمبردار سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں کون کس سے بات کرے، کس کی بات کو درست سمجھے، کس کے بیان کو اہمیت دے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن کہتے ہیں دعا اور امید ہے فوج اور پی ٹی آئی میں ڈیڈلاک مزید برقرار نہ رہے، ہماری پوزیشن ہمیشہ یہی رہی کہ ہم ان کے ساتھ انگیج ہونا چاہتے ہیں، فوج کے ساتھ ڈیڈلاک ختم کرنے کیلئے پی ٹی آئی جو کر سکتی تھی وہ کیا ہے۔ ہمارے دروازے ان کے ساتھ بات چیت کیلئے کھلے ہیں۔ ریاست کے مفاد میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ بات چیت اشد ضروری ہے، فوج کے ساتھ ڈیڈلاک ختم کرنے کیلئے پی ٹی آئی جو کرسکتی تھی وہ کیا ہے، فوج کے ساتھ بات چیت بھی آئین کے دائرہ کار میں ہو گی۔
یہ بیان ترجمان کا ہے لیکن بانی پی ٹی آئی کو سنیں تو وہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے مختلف خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی ایک طرف فوج سے انگیجمنٹ چاہتے ہیں دوسری طرف اس حکمت عملی کے بڑے مخالف محمود اچکزئی کو سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا اختیار دیا گیا ہے۔ یہ عجب حکمت عملی ہے جہاں کوئی واضح چیز ہی نظر نہیں آتی۔
رؤف حسن کہتے ہیں کہ عمران خان نے محمود اچکزئی کو اجازت دی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے بات کرسکتے ہیں، سیاسی جماعتوں سے گفتگو کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں تو وہ بالکل کوشش کریں۔ یہ ایک بیانیہ ہے جب کہ دوسری طرف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی کے مطابق پارٹی کی سینئر قیادت مسلم لیگ ن سے مذاکرات کی خواہش نہیں رکھتی ہے۔ اب کوئی بتائے کہ یہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی پہلے بیٹھ کر مشورہ کر لے کہ کس سے مذاکرات کرنے ہیں، کس سے بات چیت کرنی ہے اور کس سے بات چیت نہیں کرنی۔ مشترکہ بیانیہ رکھیں یا کسی ایک کی ذمہ داری لگائیں جو ایسے معاملات میں پارٹی کا موقف پیش کرے۔ سب بیانات جاری کرنے کی دوڑ میں قوم کو الجھانے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ ایسے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ابہام پیدا ہو گا۔ قومی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات اور پی ٹی آئی کی خواہشات پر تقاریر ہوئی ہیں ان پر کل بات کریں گے۔
آخر میں فیض احمد فیض کا کلام
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوق فضول و الفت ناکام ہی تو ہے
دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے
اے جان جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں
دست فلک میں گردش ایام ہی تو ہے
آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یار خوش خصال سر بام ہی تو ہے
بھیگی ہے رات فیض غزل ابتدا کرو
وقت سرود درد کا ہنگام ہی تو ہے