برصغےر پاک و ہند مےں عوام کی کرکٹ کے کھےل سے دلچسپی جنوں کی قدروں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ورلڈ کپ 2011 مےں دونوں ملکوں کے مےڈےا نے اس جنون کو دےوانگی کی حد تک پھےلا دےا تھا۔ اخبارات، ٹےلی وےژن، فےچرز، غرض مےڈےا سے متعلق کسی بھی چےنل پر کرکٹ کے علاوہ کچھ اور نظر نہےں آتا تھا۔ خدا کا شکر کہ اس کے خاتمہ سے ذہنی سکون بھی واپس لوٹنے لگا ....
کتاب زےست کا ا ک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا
ےقےن کےجئے اےسا ہی ہے، گوےا کہ اک عذاب ختم ہو گےا ہو۔ ےہاں دو اےک باتےں بھارت کے خلاف موہالی کے مےدان مےں اپنی ٹےم کی پرفارمنس کے بارے مےں بھی، اول تو ےہ کہ ہماری ٹےم جس حالت مےں ورلڈ کپ کے مےدان مےں اتری تھی اس کا سےمی فائنل تک پہنچ جانا ہی اےک بڑی کامےابی سمجھنا چاہئے۔ ٹےم کے کپتان شاہد آفرےدی نے ابتدا ہی مےں کہہ دےا تھا کہ ٹےم سےمی فائنل تک ضرور جائے گی۔ ےہ اور بات کہ ہماری ٹےم نے سچن ٹنڈولکر جےسے عظےم کھلاڑی کے چار پانچ کےچ ڈراپ کر کے اسے 85 تک پہنچنے کے قابل نہ بنا دےا ہوتا۔ فےلڈنگ بہتر ہوتی۔ ےونس خان اور مصباح الحق ٹےسٹ اننگز کھےلنے کا مظاہرہ نہ کرتے تو ےہ جےتا ہو امےچ ہم لوگ نہ ہارتے۔ فائنل مےں پہنچ جاتے اور پھر کون جانے ورلڈ کپ کولمبو جاتا ےا اسلام آباد آتا۔ لےکن ےہاں ےہ بےان کرنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کھےل کو کھےل ہی سمجھنا چاہئے۔ جب دو ٹےمےں مدمقابل ہوں تو اےک جےتتی ہے، دونوں نہےں۔ ہم ٹےم کو داد دےتے ہےں کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کےا۔ ےہ اور بات کہ تو ہی ناداں چند کلےوں پر قناعت کر گےا ورنہ گلشن مےں علاج تنگئی داماں بھی تھا۔ ٹےم کے کپتان کی کارگزاری اور صلاحےتوں کا اعتراف نہ کرنا زےادتی ہو گا۔ شاہد آفرےدی نے ٹکڑوں مےں بٹی ہوئی کم حوصلہ ٹےم کی زبردست طرےق سے رہنمائی کی۔ ذاتی مثال پےش کرتے ہوئے ٹےم کی قےادت کی اور اسے بے شمار کامےابےوں سے ہم کنار کراےا۔ شاباش شاہد آفرےدی شاباش ٹےم پاکستان۔ آگے بڑھو اور بڑھتے چلے جاﺅ۔ تم مےں عظےم صلاحےتےں ہےں ، اگر ذرا سی اصلاح اور کر لو تو بلا شبہ تم دنےا کی بہترےن ٹےم بننے کی صلاحےت رکھتے ہو۔
وزےر اعلیٰ پنجاب شہباز شرےف نے منہ کا ذائقہ بدلنے کو، لندن سے واپسی پر (جہاں وہ بڑے بھائی اور مسلم لےگ ن کے قائد نواز شرےف کی عےادت کو گئے تھے) رےمنڈ ڈےوس کی رہائی کے بارے مےں اپنے موقف کو دہرا کر اس مسئلہ کو دوبارہ زندہ کر دےا ورنہ لوگ اس سارے قصہ کو بھول گئے تھے۔ پرےس برےفنگ مےں خطاب کرتے ہوئے شہباز شرےف نے بتاےا کہ نواز شرےف اےک معمولی سے پروسےجر کےلئے ہسپتال مےں داخل ہوئے تھے جہاں ڈاکٹروں نے ےقےن دلاےا تھا کہ وہ شام تک گھر جا سکےں گے۔ لےکن اس پروسےجر کے دوران کچھ اےسی پےچےدگےاں پےدا ہوگئےں کہ مےجر سرجری کا اہتمام کرنا پڑا۔ اس دوران وزےر اعلیٰ پنجاب کو بھائی کی علالت کا علم ہوا اور انہےں ہنگامی طور پر لندن جانا پڑا۔ شہباز شرےف نے بتاےا کہ بڑے مےاں صاحب اللہ کے فضل سے تےزی سے روبہ صحت ہےں۔ بعد کی اخباری اطلاعات کے مطابق مےاں نواز شرےف اےک ماہ تک لندن مےں قےام کرےں گے۔ ہماری دعا ہے کہ مےاں نواز شرےف جلد صحت ےاب ہو کر وطن لوٹےں اور اپنی پارٹی کی قےادت سنبھالےں۔ ان کی پارٹی کو مےاں نواز شرےف کی قےادت کی ضرورت ہے۔
مےاں شہباز شرےف کو رےمنڈ کی رہائی کے بارے مےں پرےس برےفنگ اس لئے کرنا پڑی کہ جس روز رےمنڈ کو عدالت نے رہا کےا اسی روز شہباز شرےف کو لندن جانا پڑا۔ ہمارے ملک مےں افواہ سازی مقبول صنعت ہے ، ےار لوگوں نے کہنا شروع کر دےا کہ شہباز شرےف کی لندن مراجعت دراصل رےمنڈ ڈےوس کی رہائی سے متعلق تھی ۔ ےہ بات اتنی تکرار سے کہی گئی کہ لوگوں نے اس پر ےقےن کرنا بھی شروع کر دےا۔ شہباز شرےف نے کہا مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کے باشعور عوام، دانشوروں اور صحافےوں نے رےمنڈ ڈےوس کے واقعے کے حوالے سے مےرے اور مےری حکومت کے بارے مےں اس مذموم پراپےگنڈے کو مسترد کر دےا۔ اپنی کارگزاری بےان کرتے ہوئے خادم پنجاب نے کہا کہ انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پنجاب انتظامےہ کو ہداےت کی کہ ملزم چاہے کوئی بھی ہو اس کا تعلق چاہے کہےں سے بھی ہو اسے فوری طور پر گرفتار کےا جائے۔ اس واقعہ کے بعد لاہور مےں اےک اےسی تارےخ رقم کی گئی جس کی نظےر پاکستان کی تارےخ مےں کہےں نہےں ملتی۔ انہوں نے سوالات اٹھائے کہ
-1 کسی حکومت کو قانون شکنی کرنے والے کسی امرےکی پر ہاتھ ڈالنے کی جرات ہوئی؟
-2 کےا اےسے کسی غےر ملکی کے خلاف پرچہ کٹا؟
-3 کےا اےسے کسی مجرم کے خلاف 302کا پرچہ درج ہوا؟
-4 کےا کسی امرےکی کو عام حوالات مےں رکھا گےا؟
-5 کےا کبھی کسی حکومت کو اےسے معاملے مےں مقدمہ چلانے کی جرا¿ت ہوئی؟
ےقےنا اےسا نہےں ہوا۔ ہم نے ملزم کے خلاف فوری طور پر اےف ۔آئی۔آر درج کروائی۔ 14 دن کے اندر اس کا چالان پےش کےا گےااور پنجاب پولےس نے اس کے اس دعوے کو مسترد کر دےا کہ اس نے ےہ اقدام حفاظت خود اختےاری مےں کےا تھا۔ طرح طرح کے دباﺅ کے باوجود ہم نے اس معاملہ مےں ذرہ برابر لچک نہےں دکھائی۔ بعض حلقوں کی طرف سے ےہ بھی کہا گےا کہ پنجاب حکومت کے وکلا نے عدالت مےں رےمنڈ ڈےوس کے خلاف کارکردگی کاوہ مظاہرہ نہےں کےا جو انہےں کرنا چاہئے تھا۔ مےں پوری ذمہ داری کے ساتھ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری پراسی کےوشن ٹےم آخری وقت تک ملزم کی رہائی کے خلاف مزاحمت کرتی رہی۔ مےں اےک دفعہ پھر اپنی بات دہرانا چاہتا ہوں کہ اگر ےہ بات ثابت ہو جائے کہ مےں نے پنجاب حکومت نے مےری پارٹی ےا اس کے کارکن نے رےمنڈ ڈےوس کی رہائی مےں براہ راست یا بالواسطہ کوئی کردار اداکےا ہے، کسی نے مقتولےن کے ورثاءسے رابطہ کر کے انہےں دےت قبول کرنے پر آمادہ کےا تو مےں اپنے منصب سے استعفیٰ دے دوں گا۔
شہباز شرےف نے پرےس برےفنگ مےں ےہ بھی کہا کہ حالےہ برسوں مےں غےر ملکیوں کی طرف سے مختلف شہروںخصوصاً اسلام آباد مےں پاکستانی قانون پامال کرنے کے درجنوں واقعات رونما ہوئے لےکن ان واقعات کے بعد قانون حرکت مےں آےا اور نہ ہی کسی کو قانون کی گرفت مےں لےا گےا۔ اس کے برعکس پنجاب مےں ہونے والے واقعہ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ شہباز شرےف صاحب نے اپنی، اپنی حکومت اور جماعت کی صفائی مےں ہر ممکن بات کہہ دی لےکن مےڈےا کے بعض اہم ارکان اس بات پر مصر ہےں کہ پنجاب حکومت کے وزےر قانون کا اس تمام واقعہ سے گہرا تعلق رہا ہے۔
اےک موقعہ پر تو ےہ بھی کہہ دےا گےا تھا کہ مےاں صاحب استعفیٰ تےار رکھےں۔ پھر ےہ کہ حالےہ برسوں مےں غےر ملکےوں کی طرف سے مختلف شہروں خصوصاً اسلام آباد مےں پاکستانی قانون پامال کرنے کے درجنوں واقعات رونما ہوئے لےکن ان کے بعد قانون حرکت مےں آےا اور نہ ہی کسی کو قانون کی گرفت مےں لےا گےا۔ اس کے برعکس پنجاب مےں ہونے والے واقعہ کی مثال دی جاتی ہے۔ اےک تو ےہ کہ اس قدر ڈھٹائی ، دےدہ دلےری سے پاکستان کے کسی شہر مےں کسی غےر ملکی نے پاکستانی شہرےوں کی جان نہےں لی، جےسا لاہور مےں ہوا۔ پھر ےہ کہنا بھی درست نہےں کہ پنجاب بالخصوص لاہور مےں قانون کی ہر خلاف ورزی پر غےر ملکےوں بالخصوص امرےکےوں کو گرفتار کےا گےا ہو، ان پر مقدمات چلائے گئے ہوں اور انہےں جےل کی ہوا کھانی پڑی ہو۔ رےمنڈ ڈےوس کے بھائی بند سےنکڑوں کی تعداد مےں ملک کے کونے کونے مےں پھرتے ہےں، گاڑےوں پر جعلی نمبر پلےٹ لگائے ہوئے، شےشے سےاہ کئے ہوئے، خود لاہور مےں انہےں روکنے کی کوشش کی گئی، لےکن ناکام۔ نہ کوئی گرفتاری ہوئی ، نہ پرچہ درج ہوا۔ دراصل پنجاب پاکستان کا اےک صوبہ ہے کوئی علےحدہ ملک نہےں۔ ملک مےں اس سے پہلے بھی کولےشن حکومتےں بنتی رہی ہےں، لےکن صوبہ اور وفاق مےں اےسا تناﺅ دےکھنے مےں نہےں آےا جےسا ان دنوں ہوتا ہے۔ مےں خود اےک اےسی ہی حکومت مےں صوبہ کا چےف سےکرٹری تھا۔ وزراءشائستگی اور تمےز سے اےک دوسرے سے خطاب کرتے تھے ۔ موجودہ دور کا ( FREE FOR ALL) سکّہ رائج الوقت نہےں تھا، نہ اب ہونا چاہئے۔ پھر رےمنڈ ڈےوس اگر آپ کی عدالت سے، آپ کے قانون کے مطابق رہا ہو گےا ہے تو کون سا آسمان گر پڑا ہے۔ رےمنڈ ڈےوس کا فےصلہ اب تارےخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس پر کج بحثی کی بجائے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹرز کی ہڑتال اےک اور مسئلہ ہے جو فوری طور پر حل ہونا چاہئے۔ درست ہے کہ ڈاکٹرز کے پےشہ کا تقدس تقاضہ کرتا ہے کہ مرےضوں کی زندگی اور صحت کوہر دوسری چےز پرمقدم ہونا چاہئے ۔لےکن حکومت کو بھی ذرا غور کرنا چاہئے کہ کس قدر رقم خرچ کر کے اور کتنی محنت شاقہ کے بعد اےک نوجوان ڈاکٹر بنتا ہے۔ پھر اس کے کام کرنے کے طور طرےق اور مشاہرہ، کم از کم اتنا ہو کہ وہ بھی آبرو مندانہ زندگی بسر کر سکے۔ درست ہے کہ حکومت کے پاس اختےار ہے وہ ان ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف مقدمات قائم کرکے انہےں گرفتار کر کے جےل بھجوا سکتی ہے۔ انہےں نوکرےوں سے برطرف بھی کر سکتی ہے، مگر اےسا کرنا مسئلہ کا حل ہو گا؟ پھر اس حکومت نے اپنے چند ملازمےن کی تنخواہےں اور مشاہرے لاکھوں روپے ماہوار مقرر کر رکھے ہےں۔ بظاہر اےسا کرنے کا بھی کوئی جواز نظر نہےں آتا۔ حق رسد و لےکن حد بود جفارا۔
بلوچستان مےںسلگتی دھےمی آگ خدا نہ کرے حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بھڑک کر شعلہ جوالہ بن جائے۔ جو اس صوبے مےں سب کچھ بھسم کر کے رکھ دے۔آئے دن گولےوں سے چھلنی لاشوں کی برآمدگی، صوبے مےں غےر بلوچ شہرےوں کے اغوا، ہلاکتےں، سےکورٹی فورسز اور قومی انفراسٹرکچر پر حملے اور ان کی تباہی، اےک تشوےش ناک صورت حال کا پتہ دےتی ہےں۔ صوبائی حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ وزےر اعلیٰ بلوچستان کہتے ہےں کہ وہ مسئلہ کے حل مےں بے اختےار و بے بس ہےں۔ بلوچستان بھی پاکستان کا اےک صوبہ ہے۔ اس صوبہ کے مسائل کا حل حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آخر عوام کتنا خون اور بہتا دےکھےں گے؟ ابھی کتنا انتظار اور کرنا پڑے گا؟
کتاب زےست کا ا ک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا
ےقےن کےجئے اےسا ہی ہے، گوےا کہ اک عذاب ختم ہو گےا ہو۔ ےہاں دو اےک باتےں بھارت کے خلاف موہالی کے مےدان مےں اپنی ٹےم کی پرفارمنس کے بارے مےں بھی، اول تو ےہ کہ ہماری ٹےم جس حالت مےں ورلڈ کپ کے مےدان مےں اتری تھی اس کا سےمی فائنل تک پہنچ جانا ہی اےک بڑی کامےابی سمجھنا چاہئے۔ ٹےم کے کپتان شاہد آفرےدی نے ابتدا ہی مےں کہہ دےا تھا کہ ٹےم سےمی فائنل تک ضرور جائے گی۔ ےہ اور بات کہ ہماری ٹےم نے سچن ٹنڈولکر جےسے عظےم کھلاڑی کے چار پانچ کےچ ڈراپ کر کے اسے 85 تک پہنچنے کے قابل نہ بنا دےا ہوتا۔ فےلڈنگ بہتر ہوتی۔ ےونس خان اور مصباح الحق ٹےسٹ اننگز کھےلنے کا مظاہرہ نہ کرتے تو ےہ جےتا ہو امےچ ہم لوگ نہ ہارتے۔ فائنل مےں پہنچ جاتے اور پھر کون جانے ورلڈ کپ کولمبو جاتا ےا اسلام آباد آتا۔ لےکن ےہاں ےہ بےان کرنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کھےل کو کھےل ہی سمجھنا چاہئے۔ جب دو ٹےمےں مدمقابل ہوں تو اےک جےتتی ہے، دونوں نہےں۔ ہم ٹےم کو داد دےتے ہےں کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کےا۔ ےہ اور بات کہ تو ہی ناداں چند کلےوں پر قناعت کر گےا ورنہ گلشن مےں علاج تنگئی داماں بھی تھا۔ ٹےم کے کپتان کی کارگزاری اور صلاحےتوں کا اعتراف نہ کرنا زےادتی ہو گا۔ شاہد آفرےدی نے ٹکڑوں مےں بٹی ہوئی کم حوصلہ ٹےم کی زبردست طرےق سے رہنمائی کی۔ ذاتی مثال پےش کرتے ہوئے ٹےم کی قےادت کی اور اسے بے شمار کامےابےوں سے ہم کنار کراےا۔ شاباش شاہد آفرےدی شاباش ٹےم پاکستان۔ آگے بڑھو اور بڑھتے چلے جاﺅ۔ تم مےں عظےم صلاحےتےں ہےں ، اگر ذرا سی اصلاح اور کر لو تو بلا شبہ تم دنےا کی بہترےن ٹےم بننے کی صلاحےت رکھتے ہو۔
وزےر اعلیٰ پنجاب شہباز شرےف نے منہ کا ذائقہ بدلنے کو، لندن سے واپسی پر (جہاں وہ بڑے بھائی اور مسلم لےگ ن کے قائد نواز شرےف کی عےادت کو گئے تھے) رےمنڈ ڈےوس کی رہائی کے بارے مےں اپنے موقف کو دہرا کر اس مسئلہ کو دوبارہ زندہ کر دےا ورنہ لوگ اس سارے قصہ کو بھول گئے تھے۔ پرےس برےفنگ مےں خطاب کرتے ہوئے شہباز شرےف نے بتاےا کہ نواز شرےف اےک معمولی سے پروسےجر کےلئے ہسپتال مےں داخل ہوئے تھے جہاں ڈاکٹروں نے ےقےن دلاےا تھا کہ وہ شام تک گھر جا سکےں گے۔ لےکن اس پروسےجر کے دوران کچھ اےسی پےچےدگےاں پےدا ہوگئےں کہ مےجر سرجری کا اہتمام کرنا پڑا۔ اس دوران وزےر اعلیٰ پنجاب کو بھائی کی علالت کا علم ہوا اور انہےں ہنگامی طور پر لندن جانا پڑا۔ شہباز شرےف نے بتاےا کہ بڑے مےاں صاحب اللہ کے فضل سے تےزی سے روبہ صحت ہےں۔ بعد کی اخباری اطلاعات کے مطابق مےاں نواز شرےف اےک ماہ تک لندن مےں قےام کرےں گے۔ ہماری دعا ہے کہ مےاں نواز شرےف جلد صحت ےاب ہو کر وطن لوٹےں اور اپنی پارٹی کی قےادت سنبھالےں۔ ان کی پارٹی کو مےاں نواز شرےف کی قےادت کی ضرورت ہے۔
مےاں شہباز شرےف کو رےمنڈ کی رہائی کے بارے مےں پرےس برےفنگ اس لئے کرنا پڑی کہ جس روز رےمنڈ کو عدالت نے رہا کےا اسی روز شہباز شرےف کو لندن جانا پڑا۔ ہمارے ملک مےں افواہ سازی مقبول صنعت ہے ، ےار لوگوں نے کہنا شروع کر دےا کہ شہباز شرےف کی لندن مراجعت دراصل رےمنڈ ڈےوس کی رہائی سے متعلق تھی ۔ ےہ بات اتنی تکرار سے کہی گئی کہ لوگوں نے اس پر ےقےن کرنا بھی شروع کر دےا۔ شہباز شرےف نے کہا مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کے باشعور عوام، دانشوروں اور صحافےوں نے رےمنڈ ڈےوس کے واقعے کے حوالے سے مےرے اور مےری حکومت کے بارے مےں اس مذموم پراپےگنڈے کو مسترد کر دےا۔ اپنی کارگزاری بےان کرتے ہوئے خادم پنجاب نے کہا کہ انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پنجاب انتظامےہ کو ہداےت کی کہ ملزم چاہے کوئی بھی ہو اس کا تعلق چاہے کہےں سے بھی ہو اسے فوری طور پر گرفتار کےا جائے۔ اس واقعہ کے بعد لاہور مےں اےک اےسی تارےخ رقم کی گئی جس کی نظےر پاکستان کی تارےخ مےں کہےں نہےں ملتی۔ انہوں نے سوالات اٹھائے کہ
-1 کسی حکومت کو قانون شکنی کرنے والے کسی امرےکی پر ہاتھ ڈالنے کی جرات ہوئی؟
-2 کےا اےسے کسی غےر ملکی کے خلاف پرچہ کٹا؟
-3 کےا اےسے کسی مجرم کے خلاف 302کا پرچہ درج ہوا؟
-4 کےا کسی امرےکی کو عام حوالات مےں رکھا گےا؟
-5 کےا کبھی کسی حکومت کو اےسے معاملے مےں مقدمہ چلانے کی جرا¿ت ہوئی؟
ےقےنا اےسا نہےں ہوا۔ ہم نے ملزم کے خلاف فوری طور پر اےف ۔آئی۔آر درج کروائی۔ 14 دن کے اندر اس کا چالان پےش کےا گےااور پنجاب پولےس نے اس کے اس دعوے کو مسترد کر دےا کہ اس نے ےہ اقدام حفاظت خود اختےاری مےں کےا تھا۔ طرح طرح کے دباﺅ کے باوجود ہم نے اس معاملہ مےں ذرہ برابر لچک نہےں دکھائی۔ بعض حلقوں کی طرف سے ےہ بھی کہا گےا کہ پنجاب حکومت کے وکلا نے عدالت مےں رےمنڈ ڈےوس کے خلاف کارکردگی کاوہ مظاہرہ نہےں کےا جو انہےں کرنا چاہئے تھا۔ مےں پوری ذمہ داری کے ساتھ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری پراسی کےوشن ٹےم آخری وقت تک ملزم کی رہائی کے خلاف مزاحمت کرتی رہی۔ مےں اےک دفعہ پھر اپنی بات دہرانا چاہتا ہوں کہ اگر ےہ بات ثابت ہو جائے کہ مےں نے پنجاب حکومت نے مےری پارٹی ےا اس کے کارکن نے رےمنڈ ڈےوس کی رہائی مےں براہ راست یا بالواسطہ کوئی کردار اداکےا ہے، کسی نے مقتولےن کے ورثاءسے رابطہ کر کے انہےں دےت قبول کرنے پر آمادہ کےا تو مےں اپنے منصب سے استعفیٰ دے دوں گا۔
شہباز شرےف نے پرےس برےفنگ مےں ےہ بھی کہا کہ حالےہ برسوں مےں غےر ملکیوں کی طرف سے مختلف شہروںخصوصاً اسلام آباد مےں پاکستانی قانون پامال کرنے کے درجنوں واقعات رونما ہوئے لےکن ان واقعات کے بعد قانون حرکت مےں آےا اور نہ ہی کسی کو قانون کی گرفت مےں لےا گےا۔ اس کے برعکس پنجاب مےں ہونے والے واقعہ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ شہباز شرےف صاحب نے اپنی، اپنی حکومت اور جماعت کی صفائی مےں ہر ممکن بات کہہ دی لےکن مےڈےا کے بعض اہم ارکان اس بات پر مصر ہےں کہ پنجاب حکومت کے وزےر قانون کا اس تمام واقعہ سے گہرا تعلق رہا ہے۔
اےک موقعہ پر تو ےہ بھی کہہ دےا گےا تھا کہ مےاں صاحب استعفیٰ تےار رکھےں۔ پھر ےہ کہ حالےہ برسوں مےں غےر ملکےوں کی طرف سے مختلف شہروں خصوصاً اسلام آباد مےں پاکستانی قانون پامال کرنے کے درجنوں واقعات رونما ہوئے لےکن ان کے بعد قانون حرکت مےں آےا اور نہ ہی کسی کو قانون کی گرفت مےں لےا گےا۔ اس کے برعکس پنجاب مےں ہونے والے واقعہ کی مثال دی جاتی ہے۔ اےک تو ےہ کہ اس قدر ڈھٹائی ، دےدہ دلےری سے پاکستان کے کسی شہر مےں کسی غےر ملکی نے پاکستانی شہرےوں کی جان نہےں لی، جےسا لاہور مےں ہوا۔ پھر ےہ کہنا بھی درست نہےں کہ پنجاب بالخصوص لاہور مےں قانون کی ہر خلاف ورزی پر غےر ملکےوں بالخصوص امرےکےوں کو گرفتار کےا گےا ہو، ان پر مقدمات چلائے گئے ہوں اور انہےں جےل کی ہوا کھانی پڑی ہو۔ رےمنڈ ڈےوس کے بھائی بند سےنکڑوں کی تعداد مےں ملک کے کونے کونے مےں پھرتے ہےں، گاڑےوں پر جعلی نمبر پلےٹ لگائے ہوئے، شےشے سےاہ کئے ہوئے، خود لاہور مےں انہےں روکنے کی کوشش کی گئی، لےکن ناکام۔ نہ کوئی گرفتاری ہوئی ، نہ پرچہ درج ہوا۔ دراصل پنجاب پاکستان کا اےک صوبہ ہے کوئی علےحدہ ملک نہےں۔ ملک مےں اس سے پہلے بھی کولےشن حکومتےں بنتی رہی ہےں، لےکن صوبہ اور وفاق مےں اےسا تناﺅ دےکھنے مےں نہےں آےا جےسا ان دنوں ہوتا ہے۔ مےں خود اےک اےسی ہی حکومت مےں صوبہ کا چےف سےکرٹری تھا۔ وزراءشائستگی اور تمےز سے اےک دوسرے سے خطاب کرتے تھے ۔ موجودہ دور کا ( FREE FOR ALL) سکّہ رائج الوقت نہےں تھا، نہ اب ہونا چاہئے۔ پھر رےمنڈ ڈےوس اگر آپ کی عدالت سے، آپ کے قانون کے مطابق رہا ہو گےا ہے تو کون سا آسمان گر پڑا ہے۔ رےمنڈ ڈےوس کا فےصلہ اب تارےخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس پر کج بحثی کی بجائے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹرز کی ہڑتال اےک اور مسئلہ ہے جو فوری طور پر حل ہونا چاہئے۔ درست ہے کہ ڈاکٹرز کے پےشہ کا تقدس تقاضہ کرتا ہے کہ مرےضوں کی زندگی اور صحت کوہر دوسری چےز پرمقدم ہونا چاہئے ۔لےکن حکومت کو بھی ذرا غور کرنا چاہئے کہ کس قدر رقم خرچ کر کے اور کتنی محنت شاقہ کے بعد اےک نوجوان ڈاکٹر بنتا ہے۔ پھر اس کے کام کرنے کے طور طرےق اور مشاہرہ، کم از کم اتنا ہو کہ وہ بھی آبرو مندانہ زندگی بسر کر سکے۔ درست ہے کہ حکومت کے پاس اختےار ہے وہ ان ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف مقدمات قائم کرکے انہےں گرفتار کر کے جےل بھجوا سکتی ہے۔ انہےں نوکرےوں سے برطرف بھی کر سکتی ہے، مگر اےسا کرنا مسئلہ کا حل ہو گا؟ پھر اس حکومت نے اپنے چند ملازمےن کی تنخواہےں اور مشاہرے لاکھوں روپے ماہوار مقرر کر رکھے ہےں۔ بظاہر اےسا کرنے کا بھی کوئی جواز نظر نہےں آتا۔ حق رسد و لےکن حد بود جفارا۔
بلوچستان مےںسلگتی دھےمی آگ خدا نہ کرے حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بھڑک کر شعلہ جوالہ بن جائے۔ جو اس صوبے مےں سب کچھ بھسم کر کے رکھ دے۔آئے دن گولےوں سے چھلنی لاشوں کی برآمدگی، صوبے مےں غےر بلوچ شہرےوں کے اغوا، ہلاکتےں، سےکورٹی فورسز اور قومی انفراسٹرکچر پر حملے اور ان کی تباہی، اےک تشوےش ناک صورت حال کا پتہ دےتی ہےں۔ صوبائی حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ وزےر اعلیٰ بلوچستان کہتے ہےں کہ وہ مسئلہ کے حل مےں بے اختےار و بے بس ہےں۔ بلوچستان بھی پاکستان کا اےک صوبہ ہے۔ اس صوبہ کے مسائل کا حل حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آخر عوام کتنا خون اور بہتا دےکھےں گے؟ ابھی کتنا انتظار اور کرنا پڑے گا؟