یہ بات تو انتہائی اطمینان بخش ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے ہر مسلمان امیدوار کو اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے یہ حلفیہ بیان دینا پڑتا ہے کہ میں خاتم النبین حضرت محمدﷺ کو ختم نبوت پر قطعی اور غیر مشروط ایمان رکھتا ہوں اور میں کسی ایسے شحض کا پیروکار نہیں ہوں جو حضرت محمدﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم اور تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہو نے کا دعویدار ہو۔ اور نہ ہی میرا تعلق قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے ہے جو خود کو احمدی کہلاتا ہے۔ امیدوار کو اس بات کا بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔گویا کوئی قادیانی یا دیگر کوئی غیر مسلم پاکستان میں مسلمانوں کی نشستوں پر حصہ نہیں لے سکتا۔ اسی طرح اسلامی نظرئیے کو قیام پاکستان کی بنیاد نہ سمجھنے والا بھی انتخابات کے لیے نااہل قرار پائے گا۔
پاکستان کے آئین کے آر ٹیکل 62کے مطابق ہر مسلمان امیدوار کے لئے اسلامی تعلیمات کا کافی علم رکھنا بھی ضروری ہے اور اسلام کے تمام فرائض پر پابندی کے ساتھ عمل بھی امیدواران اسمبلی کے لئے لازمی شرط ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنے والے امیدوار بھی اسمبلیوں اور سینٹ کے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ امیدوار کے لیے نیک و پاکباز (بدکار نہ ہو) دانا و زیرک، صادق اور امین ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک منتخب رکن اسمبلی اگر نظریہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے تو وہ اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو جائےگا۔ بالکل اسی طرح جیسے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے جرم میں صرف 30 سکینڈ کی سزا کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت اور وزیراعظم کے عہدے سے بھی محروم ہو گئے تھے۔
ایک ریٹرننگ افسر کے سامنے کوئی بھی امیدوار یا اس حلقے کا ووٹر کسی بھی دوسرے امیدوار کے بارے میں یہ اعتراضات پیش کر سکتا ہے کہ فلاں امیدوار اسلامی تعلیمات کا اطمینان بخش علم نہیںرکھتا اور یہ کہ فلاں امیدوار اسلامی احکامات کے مطابق فرائض کی ادائیگی کا پابند نہیں ہے۔ یا فلاں امیدوار نظریہ پاکستان کی مخالفت کرتا ہے یعنی وہ اسلامی نظریہ کو قیام پاکستان کی بنیاد نہیں سمجھتا۔ اسی طرح کسی بھی امیدوار کے خلاف صادق اور امین نہ ہونے کا الزام بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔ جو اگر درست ثابت ہو جائے تو وہ امیدوار انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ میری رائے میں جس ریٹرننگ افسر کے سامنے کسی امیدوار کے خلاف اسلامی تعلیمات کے حوالے سے کافی علم نہ ہو نے کا اعتراض اٹھایا جائے تو اس کے اسلامی علم کی جانچ پرکھ کے لئے ریٹرننگ افسر کا خود اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اپنا کافی علم ہونا بھی ضروری ہے۔ میں حیران ہوں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے معاملے کے اس پہلو پر غور ہی نہیں کیا۔ امیدواروں کے خلاف اعتراضات اٹھانے کا پہلا فورم ریٹرننگ آفیسر ہے۔ اگرایک ریٹرننگ آفیسر کے پاس کاغذات نامزدگی داخل کروانے والے تمام امیدوار حضرت محمدﷺ کی ختم نبوت پر اپنے قطعی اور غیر مشروط ایمان کا بیان حلفی بھی پیش کرتے ہیں اور یہ بھی واضح کردیتے ہیں کہ ان کا قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے کوئی تعلق نہیں۔ اب اگرریٹرننگ آفیسر کے روبرو مسلمان امیدوار اپنے مخالف دوسرے مسلمان امیدوار کے بارے میں اسلام کا کافی علم نہ رکھنے یا اسلامی فرائض کی بجاآوری نہ کرنے کا اعتراض اٹھاتا ہے تو کیا اس خالص اسلامی معاملات کے حوالے سے فیصلہ افسر کرے گا؟۔ مسلمان امیدوار کے صادق و امین ہونے، اسلامی تعلیمات کا مناسب اور ضروری علم رکھنے یا اسلامی فرائض پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی جانچ پرکھ کن افراد کے سپرد کی جا سکتی ہے؟۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی شرائط نمائشی او ر محض دکھاوے کی نہیں ہیں تو پھر دین اسلام کے حوالے سے ہر امیدوار کے نالج اور اسلام کے بنیادی فرائض پر پابندی کے معیار کو پرکھنے کے لئے الیکشن کمشن آف پاکستان نے صرف مسلمان ریٹرننگ افسروں کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟جس کا اپنا اسلام سے کوئی رشتہ نہیں ہے اسے مسلمان امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ لکھنے کا اختیار دینا سراسر ظلم اور نا انصافی اور یہ اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ آخر میں میں عام مسلمان ووٹرز سے بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62اور63 پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل کروانے کی ضرور کوشش کریں ۔ اسلامی تعلیمات کا Adequate Knowledge (کافی) نہ رکھنے والے اور نظریہ پاکستان کے مخالف امیدواروں کو اسمبلیوں میں نہ پہنچنے دیں۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال پر تنقید کرنے والے افراد نظریہ پاکستان کے سخت مخالف ہیں۔ ایسے عناصر کو بھی الیکشن میں ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنا کردار پر جوش اور پرزور انداز میں اداکرنا چاہئے۔