”بیٹے کو ۔باپ کا ۔سجدہ ! “

اپنے ۔”مکتوب امریکہ“۔ میں محترمہ طیّبہ ضیاءچیمہ نے، 3اپریل کے ۔ ”نوائے وقت“۔ میں صدر زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی صلح کے بارے میں۔ ”بیٹے کو باپ بنانا پڑا“۔ کا عنوان دیا ہے، جس پر مجھے ایک تاریخی واقعہ یاد آگیا، جب بیٹا۔ ہندوستان کا بادشاہ تھا اور اُس کا سگا باپ۔ اُس کے ماتحت ، ایک صوبے کا گورنر اور باپ نے، اپنے بادشاہ بیٹے کو سجدہ کر کے ، اُس کی اطاعت قبول کر نے کا عملی مظاہرہ بھی کِیا تھا۔خاندانِ غلاماں کا غیاث اُلدّین بلبن۔( جس نے 22سال تک حکومت کی)۔جب 80سال کی عُمر میں قریب اُلمرگ تھا تو اُس نے اپنے بیٹے بغرا خان ۔(جو لکھنوتی کا گورنر تھا) ۔کے بجائے اپنے دوسرے (مقتول بیٹے) شہزادہ سُلطان محمد کے بیٹے کیخسرو کو، ولی عہد نامزد کر دیا تھا، لیکن بلبن کی موت کے بعد۔ وزیرِ داخلہ ملک فخر الدین۔(یعنی اُس دور کے رحمن ملک) ۔نے درباریوں کو ساتھ مِلا کر ، بغرا خان کے 18سالہ بیٹے۔کیقباد خان کو ۔” مُعِزاُلدّین “۔کا خطاب دے کر ۔1286ءمیں، اُسے بادشاہ بنا دیا اور عیش و عشرت کا عادی بھی۔ شاہی دربار میں مسخروں اور گویوں کے سِوا کوئی اور نظر نہیں آتا تھا۔
وزیرِ داخلہ۔ ملک فخر الدّین کا بھتیجا اور داماد ، ملک نظام الدّین۔ نوجوان بادشاہ کا مصاحب خاص بن گیا اور اُس نے، کوشش یہی کی کہ۔ بادشاہ کیقباد کی اپنے والد (لکھنوتی کے گورنر) سے صُلح نہ ہو سکے۔ باپ نے ،بادشاہ بیٹے کو، بار بار خط لِکھ کر ،ملک نظام الدّین کی سازشوں سے آگاہ کیا، لیکن اُس نے کوئی پروا نہ کی ۔ د و سال بعد، بغرا خان ایک بڑا لشکر لے کر دلّی کی طرف بڑھا، بہار تک پہنچ گیا اور دریائے کھکر کے کنارے خیمہ زن ہُوا۔ بادشاہ بھی لشکر لے کر آگیا۔ باپ نے بیٹے کے نام جو صُلح کے خطوط بھیجے ، اُن میں لِکھا تھاکہ۔ ”مجھے بادشاہت کی خواہش نہیں ہے۔ مَیں خوش ہُوں کہ میرا بیٹا بادشاہ ہے“۔ بادشاہ کیقباد نے ،اپنے باپ سے تنہائی میں ملاقات کی۔ ”تاریخِ فرشتہ “۔میں اِس کا عنوان ہے۔ ”باپ بیٹے میں صُلح“۔پھر نجومیوں نے۔ باپ بیٹے کی باقاعدہ ملاقات کے لئے، مُبارک گھڑی کا تعیّن کیا۔ بغرا خان، شاہی قیام گاہ کی طرف بڑھا اور خلوت خانہ میں پہنچ کراُس نے تین جگہ بادشاہ کو سجدہ کِیا ، ابھی وہ بادشاہ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ کیقباد۔ تختِ شاہی سے اُترا اور اُس نے اپنے باپ (اپنے ماتحت گورنر لکھنوتی) کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ دونوں بغل گیر ہُوئے اور فرطِ محبت سے زارو قطار رونے لگے۔
بادشاہ بیٹے کا ماتحت رہنے کے بعد، بغرا خان کو، بادشاہوں کے ماتحت رہنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ چنانچہ وہ، بعد میں آنے والے بادشاہوں۔ جلال اُلدّین خلجی ، علاﺅ اُلدّین خلجی، قُطب اُلدّین مبارک شاہ خلجی اور غیاث اُلدّین تغلق کے بھی ماتحت رہا۔ غیاث اُلدّین تغلق نے تو بغر ا خان کو بنگال کا گورنر بھی بنا دیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی (بر آمدہ)۔ وصیت کے مطابق ۔ جناب آصف زرداری کو پیپلز پارٹی کے سیاہ و سفید کا مالک قرار دیا گیا تھا، لیکن زرداری صاحب نے، پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ کا تاج اپنے ہاتھوں سے، اپنے بیٹے بلاول زرداری کے سر پر سجا دیا اور اُسے ۔”بھٹو“۔ کا خطاب بھی دے دیااور خود اُس کے ماتحت، شریک چیئرمین کا عہدہ قبول کر لیا۔ بلاول زرداری، اپنی والدہ کی طرف سے پہلے ہی بھٹو تھے۔اپنی خالہ صنم بھٹو کی وجہ سے نہیں۔جب کہ قدیم ہندوستان کی ریاست۔کپل وستو ۔ کے شہزادہ سدھارتھ کا نام۔”گوتم “۔اپنی خالہ۔” گوتمی “۔ کی وجہ سے پڑا تھا ،جو شہزادہ سدھارتھ کے والد راجا شدودھن کی دوسری بیوی تھی ۔ جناب زرداری نے اپنی دونوں بیٹیوں ،بختاور زرداری اور آصفہ زرداری کے ناموں کے ساتھ بھی ۔” بھٹو“۔ کا لاحقہ لگا لِیا ،لیکن اپنے نام کے ساتھ نہیں ۔ محترمہ، بے نظیر بھٹو نے بھی شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ۔ ”زرداری“۔ کا، لاحقہ نہیں لگایا۔ مسلم لیگ ن کی ایک لیڈر محترمہ تہمینہ دولتانہ نے 9/8 سال پہلے جب، چودھری زاہد واہلہ سے شادی کرنے کے لئے۔ ”عقیل احمد دولتانہ“۔ سے طلاق لی تھی تو، یہ انکشاف بھی کِیا تھا کہ۔ ”عقیل احمد “۔ دراصل ذات کا شیخ ہے، لیکن مجھ سے شادی کے بعد اُس نے اپنے نام کے ساتھ۔” دولتانہ “۔لِکھنا شروع کر دِیاتھا“۔
محترمہ بے نظیر بھٹو۔پاکستان اور شاید عالمِ اسلام کی، پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں۔ ہندوستان کے ،سُلطان شمس الدّین التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ بھی ،جِس نے تین سال (1236ءتا 1239ء) حکومت کی۔ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون سربراہ تھیں۔ رضیہ سلطانہ نے، اپنے حبشی غلام۔ملک یاقوت کو ۔”امیر اُلا مرا“۔ بنا کراُسے اتنے اختیارات دے دئیے تھے، جتنے کہ، 16مارچ 2013ءتک، رحمن ملک کو حاصل رہے ۔بٹھنڈہ کے حاکم ملک التونیہ نے، رضیہ سلطانہ کو قید کر کے اُس سے شادی کر لی تھی۔ اِس طرح وہ خود ہندوستان کا بادشاہ بننا چاہتا تھا، لیکن رضیہ سلطانہ نے، اپنے شوہر نامدار کو اُسی مقام پر رکھا ، جِس مقام پر ملکہءبرطانیہ ، الزبتھ دوم نے اپنے شوہر، ڈیوک آف ایڈمبراکو رکھا ہُو اہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں جنابِ زرداری بھی، ڈیوک آف ایڈمبرا کی سی پوزیشن میں رہے۔
ملک التونیہ، کی رضیہ سلطانہ سے شادی کر کے، بادشاہ بننے کی خواہش پوری نہیں ہوئی تھی، لیکن جناب آصف زرداری، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ،صدرِ پاکستان منتخب ہونے میں کامیاب ہُوئے۔ بھارت کے صوبہ آندھرا پردیش میں ایک فلمی ہِیرو ۔این۔ ٹی۔ راما راﺅ نے، کئی دھارمِک( مذہبی) فلموں ہندوﺅں کے دو اوتاروں ۔” بھگوان رام اور بھگوان کرشن“۔ کا کردار ادا کِیا۔ پھِروہ آندھرا پردیش کے ۔” ذُوالفقار علی بھٹو“۔ بن گئے اوراپنی سیاسی پارٹی ۔ ”تیلگو دیشم پارٹی“۔ بنا کر تین بار وزیرِاعلیٰ بھی منتخب ہُوئے۔جبِ راما راﺅ نے ۔ چندر بابو نائیڈو کو اپنا داماد بنا لیا تو، اُس نے اپنے ۔” روحانی والد“۔کے خلاف بغاوت کر کے ،پارٹی پر قبضہ کر لیا اور وزیرِ اعلیٰ بھی بن گئے ۔ جناب آصف زرداری نے اپنے ۔”روحانی والد“۔ کی پھانسی کے6 سال بعد ۔1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں حِصّہ لےا اور ہار گئے۔اُن کے والد جناب حاکم علی زرداری بھی ہار گئے تھے۔
جناب آصف زرداری کے پاس، اِس وقت پاکستان پیپلز پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں ہے ، جبکہ بلاول بھٹو زرداری ، پارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ اس لحاظ سے پارٹی کا ہر چھوٹا بڑا،بلاول بھٹو زرداری کا خُطبہ پڑھنے پر مجبور ہے۔ صدر زرداری نے کمال کر دیا کہ،پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم چلانے کے لئے، دُبئی جا کر بیٹے کو منا کر لے آئے ۔فِلم میں ۔” چاکلیٹ ہیرو “۔ ہو تو ، وہ اچھا Business کرتی ہے ، لیکن جب فِلم کی کہانی ۔ گِیت اور ۔منظر نامہ کمزور ہو اور چاروں طرف وِلن ہی وِلن ہوں تو ، اکیلا ۔” چاکلیٹ ہِیرو“۔ کیا کر سکتا ہے ؟۔ فِلم باکس آفس پر فلاپ ہو جاتی ہے۔ 27دسمبر2012ءکو اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر بلاول بھٹو نے، ولولہ انگیز تقریر کر کے اچھی Performance کا مظاہرہ کیا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران اُن کے پاس۔”شہادتوں اور قُربانیوں کی داستانیں“۔ سُنانے کے علاوہ ۔ بیچنے کے لئے کیا ہوگا؟۔ یہ محترمہ طیّبہ ضیاءچیمہ کو بھی عِلم نہیں ہو گا کہ، جب صدر زرداری ،خلوت میں،اپنی پارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ بیٹے سے بغل گیر ہُوئے ہوں گے تو، کیا بادشاہ مُعِزالدّین کیقباد اور اُس کے ماتحت گورنر باپ بغرا خان کی طرح جذباتی ہُوئے تھے یا نہیں ؟۔

ای پیپر دی نیشن