اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے نیب کے تفتیشی افسر کامران فیصل کی ہلاکت کے کیس میں ان کے والد کی فریق بننے کی درخواست پر پراسیکیوٹر جنرل نیب کے اعتراضات سے متعلق تحریری جواب طلب کر لیا اور سماعت اپریل تک ملتوی کر دی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کامران فیصل ہلاکت ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت میں پنجاب فرانزک لیبارٹری کی جانب سے کامران کی موت کی فرانزک رپورٹ پیش کی گئی جسے سربمہر لفافے میں رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرایا گیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ رپورٹ پولیس حکام، عدالتی معاون اور مرحوم کامران کے والد درخواست دے کر حاصل کر سکتے ہیں۔ کامران فیصل کے والد نے کیس میں فریق بننے کی درخواست دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے بیٹے کے قتل کی ایف آئی آر خارج کر دی گئی جس پر انہیں تحفظات ہیں ان کے بیٹے کامران کو قتل کیا گیا۔ درخواست گزار عدالت میں یہ ثابت کر سکتے ہیں اس کیس میں انہیں فریق بنایا جائے۔ درخواست گزار کے وکیل آفتاب باجوہ نے کہا کہ پولیس کامران کے والد کو کامران کی موت کی تفتیش سے متعلق معلومات فراہم نہیں کر رہی۔ کامران کے والد کی جانب سے دی گئی درخواست پر بھی ایف آئی آر کا اندراج ہونا چاہئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پولیس کے سوا سب کی مشترکہ کوشش ہے کہ سچ کو تلاش کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ابھی تک معلومات تک رسائی کے قانون کا علم ہی نہیں جو آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اب ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ عدالت نے پولیس کو ہدایت کی وہ آدھے گھنٹے میں کیس کی تمام رپورٹس عدالت میں پیش کی جائیں آدھے گھنٹے بعد تھانہ سیکرٹریٹ پولیس نے کیس کی تحقیقات کے حوالہ ریکارڈ عدالت میں پیش کیا پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ یہ فیکٹ فائنڈنگ معاملہ ہے کہ کامران کی موت خود کشی تھی یا قتل کامران کے والد نے فریق بننے کی درخواست دی وہ قتل کا مقدمہ چلوانا چاہتے ہیں اس پر جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کامران کے والد کو نہ سنا جائے ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کو سنے بغیرجانے دیں۔ پولیس کے علاوہ ہر کوئی چاہتا ہے تحقیقات ہوں عدالت بھی سچ جاننا چاہتی ہے جسٹس جواد خواجہ نے کہا پولیس مقتول کے والد کو دستاویزات دینے سے انکارکر رہی ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 16اپریل تک ملتوی کر دی۔
والد کامران فےصل