چار اپریل میری زندگی کا ایسا یادگار دن ہے جسے میں زبردست کوشش کے باوجود فراموش نہیں کر سکتا۔ اسی دن میری خوشیاں ملیامیٹ ہو کر ماتم میں بدل گئی تھیں۔ آج کے دن میرا ولیمہ تھا۔ شادی شدہ حضرات ولیمے والے دن کا تصور کرکے ہی مسحور و شادمان ہو جاتے ہیں۔ آج میں احباب کے ساتھ مل کر خوشیاں منانا چاہتا تھا کہ تقدیر نے خوشیاں منانے کا موقع نہ دیا اور میں ہی نہیں پورا پاکستان بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ پورا عالم اسلام دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ میں ٹوٹل زندگی میں صرف تین بار بلک بلک کر رویا ہوں۔ پہلی بار جب پاکستان کے بڑھے حصے کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا تھا یقیناً یہ سب کیا دھرا اپنوں کا ہی تھا دوسری بار جب میری والدہ ہم دو بھائیوں کو تنہا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملیں اور آخری بار میں اس وقت دیوانہ وار رویا جب عالم اسلام بالخصوص پاکستانیوں کے محبوب قائد ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔
مائیں ایسے ہیرے اور بہادر بچے کم کم ہی جنتی ہیں۔ مجھے یہ جملہ تحریر کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پاک دھرتی نے دو ہی لیڈر پیدا کئے ہیں ایک قائداعظم محمد علی جناح دوسرے ذوالفقار علی بھٹو شہید انکے بعد پاکستانی ماؤں نے لیڈر جننے بند کر دیئے ہیں شاید البتہ بے نظیر کو عظیم باپ کی خوشبو قرار دیا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قیامت تک یا جب تک پاکستان قائم ہے جناح‘ بھٹو اور بے نظیر کے ناموں کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ یہ تینوں پاکستان کے ہیرو اور ہیرے تھے ہیرو ہیں اور ہیرو رہیں گے۔ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہوا ہے۔ میں اپنے قلم کو ان وجوہات تک محدود رکھنا چاہوں گا جو بھٹو شہید کے قتل کا باعث بنیں۔
لوگ ضیاء الحق‘ مولوی مشتاق حسین اور انوار الحق کو بھٹو کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں مگر مجھے اس رائے پر تھوڑا سا اختلاف ہے کیونکہ بھٹو کے قتل کا اصل ذمہ دار عالمی دادا ہے یا تھا۔ پاکستان میں تو اس کی کٹھ پتلیاں تھیں جنہوں نے پاکستانی ہونے کے باوجود ایک مکروہ اور گھناؤنا کردار ادا کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کو مارنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ انہی دنوں ہو گیا تھا جب پاکستان کو اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اقبال نے پاکستان بنانے کا خواب دیکھا تھا اور مسلمانوں نے خواب کی تعبیر دلوا کر دم لیا تھا جبکہ مسلم امہ کو متحد کرنے کا خواب ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھا اور تعبیر حاصل کرنے کی طرف پیش رفت شروع کر دی۔ مسلم امہ کو متحد ہوتا ہوا دیکھ کر غیر مسلم اور اسلام دشمن طاقتیں تلملا اٹھیں اور سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ بھٹو کے خواب کو چکنا چور کرنے کے منصوبے بنانے کیلئے سونے پہ سہاگے کا کام قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے کام اور اقدام نے کر دیا۔ بھٹو صاحب نے شدید عالمی دباؤ کے باوجود قادیانیوں کو اقلیت و غیر مسلم قرار دلوایا تھا۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دیکر بھٹو صاحب نے اپنے لئے توشہ عافیت تیار کر لیا کہ شورش کاشمیری ایسا محافظ ختم نبوت کہہ اٹھا کہ اسلام صبح محشر تک اس باب میں بھٹو کا شکر گزار رہے گا۔پھر جگ نے دیکھا جب بھٹو صاحب نے راولپنڈی کے راجہ بازار میں ایک بڑے عوامی اجتماع میں ہنری کسنجر کا خط لہرایا تھا اور پاکستانیوں کو مطلع کیا تھا کہ اب سفید ہاتھی مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ اس دن کے بعد سے پاکستان میں موجود امریکی کٹھ پتلیاں اکٹھی ہو کر بھٹو کے در پے ہو گئیں اس اکٹھ میں اپنے اور پرائے سبھی شامل تھے اور عالم اسلام کے ایک بہت بڑے لیڈر کو بھیانک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ کہاوت ہے کہ دنیا والے تو معاف کر دیں سو کر دیں لیکن میرا اور آپ کا رب خون ناحق بہانے والوں کو معاف نہیں کرتا اور انہیں نشان عبرت نبا دیا جاتا ہے۔ بھٹو کی میت کو تو صحیح و سالم لحد میں اتارا گیا تھا یار دوست تو صرف نام کی قبروں اور نام نہاد مزاروں سے بھی آشنا و واقف ہیں لوگوں کو تو شہد کی مکھیوں کے حملے والا واقعہ بھی یاد ہے۔ بھٹو کا خون ناحق بہایا گیا اس سے بڑی گواہی اور شہادت اور گواہی اور کیا ہو سکتی ہے کہ بھٹو کی سزائے موت کو آخری شکل دینے والے بنچ کے ایک ممبر کہنے پر مجبور ہو گئے کہ بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا ہے / تھا۔ خون ناحق کی ایک مثال بے نظیر کے قتل کی بھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی خوشبو بے نظیر تو جسمانی طور پر ظالم اور مطلبی دنیا کو چھوڑ کر شہید ہو گئے بلکہ ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ باپ بیٹی کو جسمانی طور پر مارنے والے آج خود کہاں ہیں پورا جگ جانے پر دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اسلامی تعلیمات کیمطابق شہید زندہ ہوتے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر آج بھی زندہ ہیں پاکستان سیاسی طور پر جس دیوالیہ پن کا شکار ہے دونوں شہید سخت پریشان ہیں۔ آیئے انکی ارواح کی مغفرت اور سکون کیلئے بارگاہ ایزدی میں خصوصی دعا کریں۔ اللہ انکی مغفرت کرے انکے درجات بلند کرے۔ آمین۔ پاکستان زندہ باد۔ پاکستان کھپے۔
محافظ ختم نبوت ذوالفقار علی بھٹو شہید
Apr 04, 2014