پاکستان کی تاریخ کا آج وہ سیاہ ترین دن ہے جب عین 35سال قبل 4 اپریل1979ء کو ایک فوجی آمر نے ہر دلعزیز عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹوکو رات کی تاریکی میںایک جعلی قتل کیس کا سہارا لے کر تختہ دار پر لٹکا دیا۔ اس قبیح اقدام سے دوسال قبل ایسی ہی ایک سیاہ شب فوجی آمرکے سر پر جمہوریت کاخون سوار ہوا اور اس نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے الگ کر کے جیل میں ڈال دیاتھا۔ تخت سے جیل اور پھر تختہ دارتک جیالے ہتھیلی پر جان لئے گھروں سے اپنے قائد کی محبت میں نکل پڑے ، آمر نے کسی کو قید کیا ، کسی کو کوڑے لگائے اور کسی کو پھانسی لگا دیا۔ درجنوں نے خود سوزی کرکے بھٹو کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ جیالے صعوبتیں برداشت کرتے رہے ، کوڑے کھاتے اور پھانسیوں سے جھولتے رہے وہ شہید بھٹو کو آمر کے آہنی پنجوں سے تو نہ چھڑا سکے تاہم بھٹو کی شہادت کے بعد جمہوریت بحال کرانے میں کامیاب ضرور ہو گئے۔ انہوں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کی راہ میں پلکیں بچھا کر اسے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اس کی بیٹی نے بھی جیالوں کی قربانیوں کی قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی۔اسی لیے جب محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شہید ہو گئیں تو خود کو شہیدوں کا وارث ظاہر کرنے والوں کو شہیدوں کی طرح کا جیالوں نے احترام دیا اور ان کو بھی اپنی جانوں پر کھیل کر اقتدار پر براجمان کرا دیا۔ چند ماہ بعد ہی جیالوں پر واضح ہوگیا کہ جن کو اقتدار دلایا گیا وہ تو شہیدوں کے جعلی جانشیں ہیں۔ جن کا مطمع نظر لوٹ مار کر کے اپنے خزانے بھرنا ہے۔ یہ لوگ پانچ سال میں کھربوں خورد بُرد کر گئے۔ جن جیالوں کے کندھوں پر سوار ہو کر یہ اقتدار میں آئے وہ مایوس ہو کر ایک ایک کر کے گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔ 2013ء کے انتخاب ہوئے تو آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کے ساتھ صرف کرپٹ ٹولہ موجود تھا۔ جیالوںکا ساتھ چھوٹنے سے یہ ٹولہ انتخابات میں منہ بل گر گیا۔ صرف ان انتخابات میں نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے جیالوں کی نظروں سے گرگیا اور دل سے اُتر گیا۔ آج جیالے ہمیشہ کی طرح شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی عقیدت و احترام سے منا رہے ہیں۔ پانچ سال تک شہیدوں کے خون کی اقتدار کی شکل میں قیمت وصول کرنے والے ایک بار پھر آج شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی منانے کی ڈرامے بازی کرکے جیالوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے تاکہ ایک بار اقتدار میں آنے کی کوشش کریں۔ لیکن اب یقینا ایسا ممکن نہیں ہے۔ جیالے ان جعلی جانشینوں اور جبری سیاسی وارثوں کو اقتدار باگ ڈور تھمانے کے بجائے شہیدوں کے مشن خود مکمل کرنے کا عزم کریں۔
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو 4 اپریل 1928 ء کو لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور جونا گڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ پہلے ایشیائی تھے جنہیں انگلستان کی ایک یونیورسٹی ’’سائو تھمپٹن‘‘ میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ مسلم لاء کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔ 1953ء میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ آپ مختلف اوقات میںصدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت وزیر اقلیتی امور ، قومی تعمیر نو اور اطلاعات، وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر جون 1963ء تا جون 1966ء وزیرخارجہ رہے۔ دسمبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں کلین سویپ کیا۔ دسمبر 1971ء میں جنرل یحییٰ خان نے پاکستان کی عنان حکومت جناب بھٹو صاحب کو سونپ دی۔ دسمبر 1971ء تا 13 اگست 1973 صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ 14 اگست 1973ء کو نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے مبینہ الزامات کے بعد ایک تحریک شروع جس سے ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ ستمبر 1977ء میں بھٹو صاحب نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔ 18 مارچ 1978ء کو ہائی کورٹ نے انہیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل کو انہیں راولپنڈی جیل میں تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔ پھانسی کا یہ فیصلہ عدالتی تاریخ کے متنازعہ ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعدان کی پارٹی تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی تو اس نے بعد از مرگ بلکہ بعداز قتل بھٹو صاحب کو انصاف دلانے کیلئے صدارتی ریفرنس دائر کیا جس بیچ منجدھار چھوڑ کر اپنی آئینی مدت پوری کی اور چلتے بنے۔ بے نظیر بھٹوکیس پر کروڑوں روپے خرچ کئے لگتا ہے کہ اتنے اخراجات اصل قاتلوں کی پردہ پوشی کے لیے ہی کیے گیے ہیں ۔ان لوگوں نے اپنی قائد کے خون کا سودا کر لیا اور رسوا ہوگئے اور مزید رسوائیں بھی مقدر بنیں گی ۔
ذوالفقار علی بھٹو یقینا ایک طلسماتی شخصیت تھے۔ دسمبر 1971ء میں بھٹو صاحب اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔ ان کو کٹا پھٹا پاکستان ملا تھا، اس وقت معیشت ڈوبی ہوئی اور 93ہزار پاکستانی فوجی اور سویلین بھارت کی قید میں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بڑے سلیقے اور تدبر سے پاکستان کی تعمیر کی۔ جنگی قیدیوںکوواپس لائے وہ بھی بڑے آبرومندانہ طریقے سے۔ بھٹونے پاکستان کو متفقہ آئین دیا، اسلامی بینک کی بنیاد رکھی، اسلامی سربراہی کانفرنس کا لاہور میں اجلاس بلا کر مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دے کر دیرینہ مسئلہ حل کر دیا جو فرقہ ورانہ فسادات کا مستقل سبب بن رہا تھا۔ مزدور کو اپنا حق مانگنے کا طریقہ سکھایا۔ عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ بیرونی ممالک وسیع تر روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ تعلیمی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں کیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کارناموں کی فہرست طویل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد آج تک تمام حکمرانوں کی کارکردگی ایک طرف، بھٹو صاحب کی دوسری طرف، ان سب پر بھاری پڑ جاتی ہے۔ انہوں نے ورکر کو اس کا صحیح مقام دیا۔ ورکر پر اعتماد کیا تو ورکر نے انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا اور ان کو تخت تک لے گئے۔ بالآخر وہ بھی جاگیرداروں کے نرغے میں آئے جو بھٹو صاحب کو تخت سے تختے تک لے گئے۔ پھانسی کے پھندے سے جھول جانے کے باوجود بھٹو اپنے چاہنے والوں کے دل میں زندہ رہا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو فوجی حاکم اور امریکہ مل کر بھی ختم نہ کر سکے اسے بھٹو کے جعلی جانشینوں نے پانچ سالہ اقتدار کے دوران تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ میری جیالوں سے شہید ذولفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر درخواست ہے کہ پیپلز پارٹی کو شہیدوں کے بوگس وارثوں کے چنگل سے چھڑانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔