بلاول کے نام خط جسے دوسرے بھی پڑھ سکتے ہیں

بلاول بھٹو زرداری کو ”کسی“ نے خط لکھا ہے یہ ”کسی“ کون ہے۔ اس کا کبھی پتہ نہیں چلا۔ یا پتہ چلنے نہیں دیا گیا۔ 2013 کے الیکشن کے دنوں میں بھی بلاول کو دبئی بھگا دیا گیا تھا کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ تب یہ خط ”صدر“ زرداری کو ملا تھا کہ پنجاب مخالفین کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ پہلے مرکز میں ”صدر“ زرداری تھے پنجاب ن لیگ کے پاس تھا اب مرکز نواز شریف کے پاس ہے۔ سندھ زرداری کے پاس ہے۔ جو بھی کوئی سکیم ہو گی۔ دہشت گردوں کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ وہ دھمکی کے لئے خط لکھیں۔ بالعموم وہ ایسا نہیں کرتے ”بالخصوص“ کرتے ہیں۔ عام اور خاص دہشت گرد کی تقسیم بھی اب ضروری ہو گئی ہے۔ اچھے اور برے دہشت گردوں والی بات پرانی ہو گئی ہے۔ کوئی یہ بتائے کہ دھمکی اور دھماکے میں کیا فرق ہے اب دھمکی سے بھی دھماکے کا کام لیا جانے لگ گیا ہے۔ ایک امیر کبیر لیڈی نے بچے کو داخل کرایا تو ٹیچر سے کہا کہ اگر میرا بچہ غلطی کرے تو ساتھ والے بچے کو تھپڑ مار دیا کریں یہ خود بخود سمجھ جائے گا یعنی امیر زادوں کا کام اتنے میں ہی چل جائے گا۔ مرزا غالب کا ایک مشکل سا شعر ہے مگر برمحل ہے۔ ....
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
دھمکی سے مر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا
اہل عشق جنون اور خطرے سے کھیلتے ہیں انہیں مقابلے میں کوئی مرد چاہئے ہوتا ہے کہ معرکہ ہو سکے وہ جو مرد نہیں ہوتے ہیں، بے عشق خواہشوں میں مبتلا رہتے ہیں وہ دھمکی سے ہی مر جاتے ہیں۔ بلاول کو ایک دھمکی ملی ہے نجانے کہاں سے ملی ہے۔ سیاسی ہے یا واقعی دھمکی ہے اور ایک کہرام مچ گیا ہے۔ دھماکوں میں دوسرے مرتے ہیں تو صرف تعزیتی بیان سے کام چل جاتا ہے۔ دھمکی معاملہ ذرا سنجیدہ ہے۔
صوبائی سیاسی لڑاکے وزیر رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ یہ خط رحمان ملک نے لکھا ہے بات تو سوچنے والی ہے۔ رحمان ملک ایسا کام کر سکتا ہے۔ اس سے یہ کام کروایا بھی جا سکتا ہے۔ ”صدر“ زرداری کے بعد اب بے چارے ملک صاحب کو بلاول کے تھلے لگنا پڑے گا۔ ”صدر“ زرداری کے ساتھ تو اس کی کوئی گٹ مٹ ہو گئی تھی لوگ کہنے لگے تھے کہ ”صدر“ زرداری رحمان ملک سے ڈرتے ہیں۔ نااہل وزیراعظم گیلانی وغیرہ تو کوئی ”چیز“ ہی نہ تھے۔ بے چاری شیری رحمان کو رحمان ملک کی ذرا سی شکایت پر وزارت سے جانا پڑا۔ پھر اس نے رحمان ملک کو منا لیا ہے کہ آخر میرا نام تو شیری رحمان ہے اور پھر وہ امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے بعد لگ گئی۔ حقانی کے بعد سفیر ہونے میں کوئی ”حقیقت کوئی تلخ حقیقت“ تو ہو گی۔
سنا ہے رحمان ملک نے ہولے سے کہیں کہہ دیا ہے کہ یہ خط رانا ثنا اللہ نے لکھا ہے ابھی تک رانا صاحب نے کوئی وضاحت نہیں دی۔ وضاحت تو رحمان ملک نے بھی نہیں دی۔ دونوں کے واویلے کے بعد خاموشی ہو جائے گی۔
الیکشن کے بعد خطرہ ٹل گیا بلاول سندھ آ گیا۔ اس بار بختاور اس کے ساتھ ایک گارڈ کی طرح لگ گئی۔ بہن کا کام یہی ہوتا ہے پہلے آصفہ کا چرچا تھا اور وہ ”صدر“ زرداری کی پیاری بیٹی کے طور پر تھا۔ بختاور اپنی خالہ صنم بھٹو کی طرح پس منظر میں چلی گئی تھی۔ صنم بھٹو اب خالہ کی بجائے ”خالی بھٹو“ رہ گئی ہے۔ کورم پورا ہو گیا ہے۔ بابا بھٹو پی پی بھٹو خالی بھٹو اور بے بی بھٹو۔
بلاول کا یہ نام عمران خان نے رکھا ہے۔ بلاول نے عمران کے لئے بہت سخت مگر بہت دلچسپ زبان استعمال کی ہے۔ وہ تقریر اچھی کرنے لگا ہے بابا اور بی بی سے مختلف اور ”مختلف“۔ اس نے سندھ میں سندھ فیسٹیول اپنے جیسے امیر کبیر لوگوں نوجوانوں کے لئے کیا ہے۔ بختاور نے اس کا بہت ساتھ دیا، بلکہ حق ادا کر دیا۔ آصفہ پیچھے رہی۔ یہ بھی کسی خط کی وجہ سے تھا۔ شرمیلا فاروقی نے بھی بلاول اور بختاور کا ساتھ دیا۔ ”صدر“ زرداری نے شرمیلا کی منگنی اپنے کاروباری دوست شیخ ریاض کے بیٹے ہشام ریاض سے کرا دی ہشام بہت زبردست نوجوان ہے۔ اس رشتے سے دوستی ہوئی۔ ایک ٹی وی چینل آج کل بلاول اور شرمیلا کو بہت پروموٹ کر رہا ہے۔ نجانے سپورٹ کسے کر رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن