اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان میں بھتہ خوری کیلئے موبائل فون کی افغان سمیں ہی نہیں بلکہ افغان سر زمین بھی استعمال ہو رہی ہے۔ جڑواں شہروں کے متعدد تاجر کچھ عرصہ میں خود افغانستان جا کر یا یہاں بھتہ خوروں کو کروڑوں روپے کا بھتہ ادا کر چکے ہیں۔ مسئلہ اس حد تک گھمبیر ہے کہ محض افغان سمیں ہی نہیں بلکہ سماجی رابطہ کی ویب سائٹیں، بطور خاص طورپر فیس بک، شکار کے بارے میں معلومات کی ترسیل اور اپنے بندوں کے ساتھ پیغام رسانی کا اہم ذریعہ بن چکی ہیں۔ جب کہ شکار تاڑنے کیلئے بھتہ خوروں کا فعال جاسوسی نیٹ ورک ہر جگہ موجود ہے۔ جن تاجروں نے حالیہ عرصہ میں بھتہ ادا کرنے سے انکار کیا ہے انہیں سانحہ لاہور کا حوالہ دے کر دھمکایا گیا کہ وہ خود کو محفوظ نہ سمجھیں اور مطلوبہ رقم فوراً ادا کریں ورنہ کسی وقت بھی انہیں قتل کیا جا سکتا ہے۔ متاثرین کے مطابق پاک افغان سرحد کو سیل کرنا اور پاسپورٹ کے بغیر سفر کی ممانعت ہی اس لعنت کی روک تھام کا واحد حل ہے۔ پاک افغان سرحد پر بلاروک ٹوک آمدورفت کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے مختلف گروپ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بیٹھ کر پاکستانی قبائل کے تنازعات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جڑواں شہروں کے زیادہ تر پشتون تاجر بھتہ خوروں کا آسان شکار ہیں۔ بھتہ کی رقم پر بات چیت کیلئے طورخم کے راستے افغانستان جانا روز مرہ کا معاملہ ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق ضرب عضب سے پہلے شمالی وزیرستان ٹی ٹی پی کے بھتہ خوروں کا مرکز تھا لیکن فوجی کارروائی کے نتیجہ میں دہشت گردوں کے فرار ہونے کے بعد افغانستان بھتہ خوروں کا اہم مرکز بن چکا ہے۔ چند روز پہلے پشاور میں صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں پہلی بار اس ضمن میں افغانستان سے باضابطہ مدد مانگنے کا فیصلہ کیا گیا جس سے متاثرین کو فوری فائدہ تو نہیں پہنچے گا لیکن بھتہ خوری سے نجات کیلئے درست سمت میں یہ ایک پیشرفت ضرور ہو گی۔ اس ذریعہ کے مطابق پورے فاٹا اور پشاور سمیت پختون بیلٹ کے تاجر، صنعتکار بھتہ خوری کے اس ظلم کا برسوں سے شکار ہیں۔ بنیادی بھتہ خور ٹی ٹی پی کے مختلف گروپ ہیں لیکن ان گروپوں کے افغانستان منتقل ہونے کے بعد افغان نیشنل آرمی اور افغان انٹیلیجنس بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہے۔ بھتہ خورں کا تمام مذکورہ متاثرہ علاقوں میں اپنا جاسوسی نیٹ ورک موجود ہے جو ملک دشمن سرگرمیوں بھی تعاون کرتا ہے۔ یہ جاسوس اپنے تاجر کی مکمل مالی استعداد، بنک کھاتوں، ان کھاتوں میں میں پڑی رقوم، نقد لین دین، جائیداد اور گاڑیوں و جیولری تک کی تفصیلات مکمل درستگی کے ساتھ حاصل کر کے شکار کو بے بس کر دیتے ہیں۔ سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں کے ذریعہ شکار کا مکمل ڈیٹا افغانستان بھجوایا جاتا ہے۔ جہاں سے افغان موبائل کے ذریعہ شکار کو دھمکا کر رقم طلب کی جاتی ہے۔ افغان پولیس، نیشنل آرمی یا انٹیلی جینس کے کارندے تاجروں کو خود بھتہ خوروں کے ٹھکانوں تک پہنچاتے ہیں۔ ان ٹھکانوں پر خاصے بڑے مہمان خانے بنے ہوتے ہیں جہاں بات چیت کی کامیابی یا ناکامی تک شکار کو احترام سے ٹھہرایا جاتا ہے۔ کمزور اعصاب کا شکار ، پاکستان میں ہی ڈھیر ہو کر بھتہ ادا کر دیتا ہے لیکن کئی دلیر تاجر بھتہ دینے سے کھلا انکار کر دتیے ہیں۔ کئی مانگی گئی رقم زیادہ ہونے کی صورت میں افغانستان جا کر بھتہ خوروں سے براہ راست بات چیت کرتے ہیں۔ قبائلی تنازعات کے حل میں فریقین کو کارروائی کے اخراجات اور کمیشن کی رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس ذریعہ سے ٹی ٹی پی نے قبائلی علاقوں میں اب تک اپنا اثر و رسوخ اور دبدبہ برقرار رکھا ہوا۔ بھتہ دینے کیلئے افغانستان جانے والے ایک تاجر سمیت متعدد ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد کو سیل کرنا ہی بھتہ خوری اور دہشت گردی ختم کرنے کا واحد حل ہے۔
بھتہ خوری
پاکستان میں بَھتہ خوری کےلئے افغان سِمیں اور سَرزمین استعمال ہو رہی ہے: ذرائع
Apr 04, 2016