جدید ڈریکولائی ممالک

Apr 04, 2017

ڈریکولا کا نام ذہن میں آتے ہی اس کی بے ڈھنگی اور ہیبت ناک شکل بھی امڈ آتی ہے۔ صدیوں سے ان دھلے اور ان کٹے بال تیز دھار تلواروں کی طرح کھڑے اس کے شانوں‘ کمر اور چھاتی پر بکھرے محسوس ہوتے ہیں۔ سرخ اور سیاہ دھبوں سے مزین دانت اس کو مزید خوفناک کرتے نظر آتے ہیں۔ اس پر ان کے لمبے ناخن تو جیسے بنے ہی انسانوں کا گلا دبانے کے لئے ہوتے ہیں۔ کچھ ڈرا¶نے ناولوں‘ کہانیوں اور فلموں میں ان کا ایک اور ہیبتناک پہلو بھی سامنے آتا ہے۔ ڈریکولا جس کو پکڑ لے اس کا تو خون پی جاتا ہے لیکن جو اس کے چنگل سے بچ نکلے وہ اس کے لگائے گئے زخموں کی بدولت خود بھی ڈریکولا بن جاتا اور انسانی خون کا پیاسا ہو جاتا ہے۔
جدید ڈریکولا¶ں نے خون پینا ترک کر دیا ہے البتہ انسانی خون کا بہانا ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا نام نہاد امن کا علمبردار امریکہ اس معاملے میں پیش پیش ہے۔ جہاں جی چاہا اچھے خاصے پرامن ملک کو بدامنی کا شکار کر کے پیچھے ہٹ گیا اور دور بیٹھ کر خون بہتا دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔ اس کی مثالیں جا بجا پھیلی ہوئی ہیں جن سے ہر کوئی واقف ہے جس نے اس جدید ڈریکولا کو آنکھیں دکھائیں اور اسے اپنے معاملات میں دخل اندازی سے باز رکھا وہ اس کے شر سے محفوظ رہا۔ جدید ڈریکولائی خاندان کا نائب ہمارے ہمسائے میں رہتا ہے جس کا چہرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید سے مزید مکروہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نزدیک کسی کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔ وہ مذہبی‘ مسلکی اور ذات پات کی بنیاد پر اپنے ملک کی عوام کو آپس میں لڑا کر ان کے بہتے خون کے نظارے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ بظاہر تو وہ ہندو¶ں کے ذریعے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا قتل عام کرواتا ہے لیکن پس منظر میں وہ ہندو¶ں کو مرتا دیکھ کر بھی کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کے مرنے جتنا ہی خوش ہوتا ہے کیونکہ ڈریکولا کو تو انسانی خون سے غرض ہوتی ہے چاہے انسان کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ اس نائب ڈریکولا کو اگر کوئی خون پسند نہیں ہے تو وہ گائے کا خون ہے جسے وہ ماں کا درجہ دیتا ہے۔ جو خون اسے سب سے زیادہ پسند ہے وہ مظلوم کشمیریوں کا خون ہے۔
جدید ڈریکولائی خاندان کا تیسرا ڈریکولا مشرق وسطیٰ میں ہے۔ عمومی طور پر تو اس نے پورے خطے کے ممالک کا ناک میں دم کر رکھا ہے تاہم خصوصی طور پر یہ معصوم فلسطینیوں کے خون کا دیوانہ ہے۔ اس کا ارادہ فلسطینی مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنااور وہاں اپنے ڈریکولائی بچوں کو آباد کرنا ہے۔ جب اس کے کسی اقدام کے خلاف فلسطینی عوام مزاحمت کرتے ہیں تو یہ اتنا تلملاتا ہے کہ مزید معصوموں کا خون بہانا ہی اس کی تسلی کا باعث بنتا ہے۔ جدید ڈریکولائی خاندان کا ایک چھوٹا اور سب سے خطرناک ڈریکولا میانمار میں آباد ہے جس نے اراکان (رکھائن) کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا اپنا مشغلہ بنایا ہوا ہے۔ یہ سب سے خطرناک اس لئے ہے کیونکہ یہ نہ صرف مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے بلکہ ان کی آواز کو بھی اس حد تک دبا دیتا ہے کہ وہ کسی تک پہنچ نہیں پاتی۔
اسی طرح کا ایک ڈریکولا وسطی افریقی جمہوریہ میں بھی جنم لے چکا ہے۔ ۲۰۱۵ءمیں اس نے مسلمانوں کا جی بھر کر خون بہایا۔ فرانس کی مداخلت پر معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ شام میں شامی حکومت‘ متحارب گروپوں اور داعش کی صورت میں مقامی ڈریکولے ان ایکشن ہیں۔ عراق میں بھی داعش کی صورت میں مختلف ممالک کے ڈریکولے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ ان ڈریکولائی ممالک نے را ‘ سی آئی اے اور موساد کی صورت میں اپنے چمچے کڑچھے دوسرے ممالک کو کمزور کرنے کے لئے پھیلائے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں گرفتار ہونے والا کلبھوشن یادیو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ سارے جدید ڈریکولے مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ انہیں مسلمانوں کا تابناک ماضی جینے نہیں دیتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے زچ کر کے رکھا جائے تاکہ دنیا پر اپنی حکومت قائم کی جا سکے۔ مسلمان خوشحال اور مطمئن ہو گئے تو وہ دنیا پر حکمرانی کا خواب کبھی پورا نہیں کر سکیں گے۔
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں