مجید نظامی، سچے پاکستانی

مجید نظامی ۔۔ پاکستان کی حقیقی تصویر ”محب وطن‘ باکردار‘ اصول پسند‘ ایماندار‘ اسلام کا سچا سپاہی اور سب سے بڑھ کر عاشق رسول مجید نظامی صاحب سے میرا تعلق اسلام اور پاکستان کا تعلق ہے میرے والد گرامی الحاج محمد امین بٹ صاحب خدمت خلق کے پیکر تھے۔ سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ان کی سیاست کا محور اسلام‘ مسلم لیگ اور پاکستان تھا اور اس محور میں مرکز ثقل مجید نظامی اور نوائے وقت کی صورت میں موجود تھا۔ اور اب بھی موجود ہے۔ اسی محور کی طرف کھینچ جانا ضروری تھا سو اس مرکز ثقل کی طرف پہلے والد گرامی اور پھر میں کھینچتے چلے گئے۔ مجید نظامی صاحب نے بھی کھلے ہاتھوں انتہائی اپنائیت کے ساتھ ہمیں سینے سے لگائے رکھا۔ جوانی کا زمانہ بڑا زور آور ہوتا ہے۔ سیاست میں خصوصاً طلبا سیاست کا دور بڑا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ قوت‘ طاقت اور لیڈر شپ نے بڑے بڑوں کو بہکا دیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے زمانہ طالب علمی میں قوت اور طاقت کے ساتھ ہمیں طلبا کی لیڈر شپ کا موقع ملا۔ اس نازک دور میں اگر ہم بھٹکے نہیں اور خدمت کو شعار بنایا۔ قوت کا غلط استعمال نہ کیا اور کسی ایسی سرگرمی کا حصہ نہ بنے جس کی وجہ سے ہمیں آج کسی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تو اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ ہمیں ہمارے والدین نے باور کرایا تھا کہ MSF مسلم لیگ کی بنیاد ہے۔ اس وطن عزیز کی بنیاد ہے ہم نے اس پلیٹ فارم سے وطن عزیز اور اس کی نسل کو کچھ دینا ہے لینا نہیں دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم خواجہ سعد رفیق اور دوسرے ساتھی مجید نظامی صاحب کے زیر اثر تھے۔ ان کو اپنا گرو مانتے تھے اور ان کے ارشادات کے مطابق چلتے تھے وہ ہمارے گرو تھے۔ ہمارے رہنما‘ ہمارے مرشد‘ آج ہم سرخرو ہیں ان کی وجہ سے ہیں۔ آج اگر ہم کامیاب ہیں تو ان کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے سیاست میں شرافت‘ اصول پسندی‘ وطنیت اور اسلام کوٹ کوٹ کر ہمارے اندر بھرا۔ اب تو یہ باہر ہی نہیں نکلتا دعا ہے کہ زندگی کی آخری سانسوں تک اندر ہی ہے۔ مجید نظامی صاحب نے حمید نظامی صاحب کے بعد نوائے وقت کی ادارت سنبھالی تو انہوں نے حمید نظامی مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہو۔ ہمیشہ نظریہ پاکستان کی ترویج‘ پاکستان کی سالمیت اور استحکام‘ جمہوریت کی بحالی‘ وطن عزیز میں اسلامی جمہوری نظام کو رائج کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کو اپنا مقصد بنایا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے کبھی بھی ذاتی مفاد کو مسائل نہ کیا۔ اور ہر آمر کے خلاف سینہ سپر رہے۔ صدر ایوب کے دور حکومت میں انہوں نے نوائے وقت کی بھاگ ڈور سنبھالی۔ کراچی میں صدر ایوب خان کے ساتھ مدیران کی پہلی ملاقات کا احوال انہوں نے خود سنایا۔ ہم مدیران جرائد کو اس طرح بٹھایا گیا جیسے کلاس روم ہو ادا کرتے ہی فیلڈ مارشل ایوب خان نے بڑے سخت لہجے میں کہا۔
آپ حضرات جو کچھ کر رہے ہیں اس پر آپ کو شرم آنی چاہئے۔ آپ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں نظامی صاحب نے فوراً اٹھ کر کہا جناب اگر جان کی امان پا¶ں تو کچھ عرض کروں؟ (طنزاً) ایوب خان مسکرائے بولے۔ جان کی امان ہے آپ بتائیے۔ نظامی صاحب نے کہا آپ مجھے بتائیے کہ مجھے کس بات پر شرم آنی چاہئے؟ میں گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سحر فخر سے بلند ہو جاتا ہے! ایوب خان نے جواب دیا۔ میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا آپ بیٹھ جائیں۔ مجید نظامی صاحب بولے۔ پھر آپ کا اشارہ جس کی طرف ہے اس کا نام لیجئے۔ سب کو گریبان میں جھانکنے کا مت کہئے۔
الطاف گوہر ایوب خان کے بڑے طاقتور سیکرٹری انفارمیشن تھے ایک دن انہوں نے نظامی صاحب سے کہا دیکھئے صحافی ہوتے ہوئے بھی آپ سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ تو کسی طرح مناسب نہیں ہے مجید نظامی کہنے لگے۔ گوہر صاحب نوائے وقت سیاسی پرچہ ہے فلمی پرچہ تو ہے نہیں۔ تو پھر سیاست پر نہ لکھوں تو کس موضوع پر لکھوں۔ یہ اخبار تحریک پاکستان کا اخبار ہے یہ 23 مارچ 1940ءکو شروع ہوا یہ اخبار ہمیشہ پاکستان کا تحفظ کرتا رہے گا۔ ایوب خان کے بعد یحییٰ کا دور آیا اس دور میں بھی نظامی صاحب نے سر نہ جھکایا اور اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔ آپ کو اس دور میں ستارہ امتیاز دیا گیا لیکن آپ لینے نہ گئے۔ کچھ عرصہ بعد ایڈیٹرز کو صدر یحییٰ نے راولپنڈی مدعو کیا۔ نظامی صاحب بھی اس میٹنگ میں شریک ہوئے۔ صدر کے پریس سیکرٹری قاضی سعید نظامی صاحب کے پاس آئے اور کہا۔ صدر صاحب نے آپکو یاد کیا ہے۔ جب نظامی صاحب اندر گئے تو یحیی خان نے میز کی دراز کھولی اور ستارہ امتیاز نکال کر مجید نظامی صاحب کے گلے میں ڈال دیا اور بولے۔ بچو! اب تو قابو آگئے ہو۔ میٹنگ کے اختتام پر یحییٰ خان کو مولانا کوثر نیازی (جو اس وقت ایک اخبار کے مدیر تھے) کہنے لگے۔ جناب صدر! ایک گزارش ہے کہ لاہور کے بعض اخبارات کے خلاف مقدمات ہیں وہ واپس لے لیں۔ ان میں نوائے وقت بھی شامل ہے۔ یحییٰ خان بولے۔ یہ معافی مانگ لیں ہم مقدمات واپس لے لیں گے۔ کوثر نیازی کہنے لگے۔
ہال میں خاموشی ہے آپ سمجھ لیں کہ معافی مانگ لی گئی ہے۔ نظامی صاحب کی غیرت کو گوارہ نہ ہوا فوراً اٹھ کر بولے معافی کس بات کی۔ یحیی خان بولے پھر مقدمہ لڑو۔ مجید نظامی نے صدر سے پوچھا۔۔ کہاں؟
یحییٰ نے کہا مارشل لاءکورٹ میں مجید نظامی جو بڑے تاریخی الفاظ ہیں۔ مارشل لاءمیں نہ تو لاءہے اور نہ مارشل لا کورٹ ”کورٹ“ ہیں۔ مجید نظامی صاحب کی کیا کیا باتیں یاد کریں اور دھرائیں۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ حقیقاً بڑے آدمی تھے بڑے آدمی چلے جاتے ہیں لیکن بڑی باتیں اور بڑی روایتیں چھوڑ جاتے ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں اور زندگی کو موت کے حوالے جب کریں تو کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہ ہو۔

ای پیپر دی نیشن