قاضی مصطفی کامل
خواجہ غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا اسم گرامی معین الدین حسنؒ ہے آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام خواجہ غیاث الدین حسنؒ ہے، آپ کا تعلق حسینی سادات سے ہے۔ جبکہ آپ کی والدہ محترمہ کا نام سیدہ ام الورع بی بی ماہِ نور ہے ،جو حسنی سادات سے تعلق رکھتی تھیں۔مستند خیال کی جانے والی روایت کے مطابق آپ کی ولادت با سعادت سنجر میں میں 14 رجب 537 ھ بمطابق 1142ءکو ہوئی۔
والد ماجد حضرت خواجہ سید غیاث الدین حسن کی وفات کے وقت خواجہ معین الدینؒ کی عمر قریباً پندرہ برس تھی۔ آپ کا شجرہ نسب ”مراة الاسرار“ کے مطابق اس طرح ہے۔حضرت غریب نواز خواجہ معین الدین بن سید غیاث الدین حسن بن سید احمد حسن بن سید طاہر حسن بن سید عبدالعزیز بن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسینؓ بن امیر المومنین حضرت سیدنا علی بن ابی طالبؓ۔ حضرت خواجہ غریب نواز وطن کے حوالے سے سنجری کہلائے۔ آپ کے مرشد پیر طریقت حضرت شیخ عثمان ہارونیؒ سلسلہ چشتیہ کے پرچم بردار تھے۔ اس لئے خواجہ غریب نواز بھی چشتی مشہور ہوئے۔ برصغیر پاکستان و ہند میںکم و بیش 40 برس تک آپ کا قیام اجمیر میں رہا اس لئے یہاں آپ اجمیری مشہور ہوئے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم والد گرامی سے حاصل کی۔آسودہ حال گھرانہ ہونے کی وجہ سے آپ کو ترکہ میں ایک وسیع باغ ملا۔باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو حضرت خواجہ معین الدین حسن کا زیادہ وقت باغ میں گزرنے لگا۔ پودوں اور درختوں کے قدرتی ماحول میں آپ باغ میں آنے جانے والے مسافروں کی خدمت میں مصروف رہتے۔ ایک روز ایک مرد قلندر حضرت ابراہیم قندوزی (ابراہیم قلندر) باغ میں تشریف لے آئے۔ حضرت خواجہ حسب معمول پودوں اور درختوں کو پانی دے رہے تھے۔ مرد قلندر کو باغ میں دیکھا تو اپنے کام سے ہاتھ روک لیا اور آگے بڑھ کر نہایت گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔ ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے بٹھا کر اپنے باغ سے اعلیٰ اور میٹھے انگووروں کا گچھا بزرگ کی خدمت میں پیش کیا۔ مرد قلندر حضرت ابراہیم قندوزی نوجوان خواجہ کی مہمان نوازی اور محبت کے ساتھ پیش آنے سے بہت متاثر ہوئے۔ خوش ہو کر نوجوان خواجہ معین الدین حسن پر نگاہ خاص ڈالی اور پھر انگوروں کے گچھے سے چند دانے اپنے ہاتھ میں لیکر نوجوان خواجہ کے منہ میں ڈال دیئے۔ قلندر کے اس تحفہ خاص کے کھانے کے بعد نوجوان خواجہ معین الدین حسن کے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور عشق الٰہی کی چنگاری نے خواجہ کو بے چین کر دیا۔ چنانچہ ایک روز آپ نے جائیداد وغیرہ فروخت کر کے دولت دنیا اللہ کی راہ میں مستحقین میں بانٹ دی۔ کچھ والدہ ماجدہ کی خدمت میں پیش کردی اور حق کی جستجو کیلئے گھر سے نکلنے کی والدہ محترمہ سے اجازت حاصل کر کے چل پڑے۔ اس دور میں راستوں کی مصیبتیں ان گنت تھیں قدم قدم پر راہزنوں کا خوف دامن گیر رہتا تھا۔ ذرائع آمدورفت بالکل نہ ہونے کے برابر تھے مگر نوجوان خواجہ سفر کرتے ثمر قند پہنچ گئے۔ اس دور میں ثمر قندو بخارا میں بڑے نامور اور جید علما کرام رونق افروز تھے۔ دور دور سے آنے والے ہزاروں علم کے متلاشی ثمر قند اور بخارا میں علم حاصل کر رہے تھے۔ نوجوان خواجہ معین الدین حسن بھی جب ثمر قند پہنچے تو وہاں اس دور کے نامور عالم دین مولانا شرف الدین کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا۔ استاد محترم کی توجہ سے بہت سے علوم پر دسترس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک بھی حفظ کر لیا۔ ثمر قند میں آپ نے حصول علم کیلئے پانچ برس گزارے۔
استاد مکرم مولانا شرف الدین سے اجازت لیکر آپ نے بخارا کا رخ کیا جو اس وقت علوم و فنون کا دوسرا بڑا مرکز تھا۔ بخارا میں آپ کی ملاقات اپنے دور کے مستند اور شہرہ آفاق عالم حضرت مولانا حسام الدین بخاری سے ہو گئی۔ جہاں 5 برس تک آپ نے ان کی شاگردی میں قرآن و حدیث فقہ، منطق اور جملہ علوم سے قلب و ذہن کو سیراب کیا۔ قرآن و حدیث، فقہ، منطق اور فلسفہ کے علوم پر ممکن حد تک عبور حاصل کرنے کے بعد حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری من کی دنیا روشن کرنے کی جستجو میں روانہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ عراق میں علم و حکمت کی خوشبو خواجہ معین الدین چشتی کو اپنی طرف کھینچ لائی۔ آپ عراق پہنچے تو قصبہ ہارون (ہرون) میں شیخ الشیوخ غوث العالم حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پہلی ہی نظر میں مرشد اور مرید دونوں نے ایک دوسرے کے مقام کو پہچان لیا۔ رشد و ہدایت کے اس رشتے کے ناطے آپ نے کم و بیش بیس برس تک مرشد کامل کی خدمت میں رہ کر باطنی تربیت حاصل کی۔اس کے علاوہ یہاں جن نادر روزگار ہستیوں سے فیض حاصل ہوا ان میں حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانیؒ (561ھ، 1166ئ) حضرت شیخ ضیاءالدین ابو الخبیب، عبدالقادر سہروردی
( 563ھ۔ 1167ئ)، حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ (618ھ، 1220ئ)، شیخ شہاب الدین عمر سہروردی ( 632ھ۔ 1234ئ) اور حضرت شیخ اوحد الدین کرمانی شامل تھے۔ تاہم آپ کا اصل منبع رشد و ہدایت حضرت خواجہ عثمان ہارونی ہی تھے اور انہی سے خرقہ¿ خلافت پایا اور انکے خلیفہ¿ اکبر، سجادہ نشین بنے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے اپنے مرید خاص پر روحانی بلندیوں کے سارے باب وا کرنے کے بعد فرمایا معین الدین حسن اب ہمارے پاس ہی رہو۔ خواجہ غریب نواز کو اور کیا چاہئے تھا۔ مرشد صادق کی خدمت میں رہنے کا دور سخت ریافتوں اور مجاہدوں کا دور تھا۔ اس دوران آپ مسلسل ایک ایک ہفتے کا روزہ اور آٹھویں دن نہایت قلیل خوراک سے افطار کرتے تھے۔ مرشد حضرت خواجہ ہارونی نے کہیں سفر پر تشریف لے جانی ہوتی تو خدمت پر مامور آپ ان کا بستر اور دوسرا سامان سر پہ اٹھائے ساتھ ساتھ ہوتے۔حضرت خواجہ ہارونی سے صرف چار بزرگان دین کو خرقہءخلافت نصیب ہوئی دیگر تین میںحضرت شیخ نجم الدین ، حضرت شیخ سعدی لنکوچی، حضرت شیخ محمد ترک شامل ہیں جبکہ مرشد اپنے شاگردوں میں خواجہ معین الدین کو محبوب حق قرار دیتے تھے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،