انیلہ طالب
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اجمیری المعروف خواجہ غریب نواز سیستان کے قصبہ سنجر میں پیدا ہوئے۔ اس نسبت سے آپ کا اصل نام حسن سنجریؒ تھا ۔آپ حسینی سید تھے آپ کی پیدائش کے ایام میں خراسان میں سلجوقی خاندان کی حکومت تھی۔ سیتان پر ترکوں کی لشکر کشی کے نتیجے میں ملک میں فتنہ و فساد برپا تھا۔ آئے دن کی مصیبتوں سے دلبرداشتہ ہو کر آپ کے والد ماجد نے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر خراسان کے صدر مقام نیشا پور میں سکونت اختیار کر لی اور حلال معاش کیلئے باغات اورپن چکی خریدی۔ نیشاپور میں رہائش کے کچھ عرصے بعد آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا، ابھی باپ کا صدمہ بھولا نہیں تھا کہ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی ماہ نور بھی داغ مفارقت دے گئیں۔والد اوروالدہ کے وصال کے بعد ترکہ میں حضرت خواجہ صاحب کے حصہ میں انگوروں کا باغ اور ایک پن چکی آئی۔ مگر دنیاوی آسائشوں سے آپ کو ہرگز اطمینان قلب نصیب نہ ہوا۔ باغ میںاس کی دیکھ بھال کے دوران حضرت شیخ ابراہیم قندوزی سے ملاقات اور ان کی ہدایت کا آپ پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ آپ اس کے بعد مرشد کامل کی تلاش میں نیشاپور کے ایک قصبے ہرون میں تشریف لے گئے۔ جہاں مرشد کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی نگاہ سے بہت جلد آپ نے سلوک کی منازل طے کیں۔ آپ پیرو مرشد کے ہمراہ تقریباً دس سال تک مختلف شہروں کی سیر و سیاحت اور اولیائے کرام و بزرگوں کی درگاہوں کی زیارت کرتے رہے، اور اپنے مرشد کے ہمراہ مکہ مکرمہ کی زیارت کی۔ کعبے کا طواف کرنے کے بعد مرشد نے ہاتھ پکڑ کر آپ کیلئے دعا فرمائی اس کے بعد مدینہ طیبہ میں حضور پاک کے روضہ انور پر حاضری کا شرف حاصل کیا۔ مدینہ شریف کے بعد آپ اپنے مرشد کے ہمراہ بغداد شریف آ گئے ۔وہاں آپ کے مرشد اعتکاف میں بیٹھ گئے اور خواجہ معین الدین چشتی کو تلقین کی کہ ہر روز چاشت کے وقت میرے پاس آیا کرو تاکہ تمہیں فقر کی تعلیم دی جائے۔ آپ مرشد کے حکم کے مطابق چاشت کے وقت حاضر ہوتے جو مرشد ارشاد فرماتے اسے قلمبند کر لیتے۔
اٹھائیس دن آپ اسی طرح حاضری دیتے رہے اور مرشد کی باتوں کو لکھتے رہے یہاں تک کے اٹھائیس دن کے درس پر مشتمل خواجہ صاحب نے اٹھائیس ابواب کا ایک رسالہ مرتب کر لیا جس کا نام النیس الارواح ہے۔ 28 دن بعد آپ کے مرشد نے خرقہ، مصلےٰ، نعلین چوبی اور عصائے مبارک عطا کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ چیزیں تمہارے پیران طریقت کی یادگار ہیں۔ ان کو نہایت ادب سے اپنے پاس رکھنا اور جو اس کا اہل ہو اسے دے دینا۔ آپ نے خواجہ معین الدین کو خرقہ خلافت سے بھی نوازا اور پھر خواجہ معین الدین کو اپنی دعاﺅں تلے رخصت کر دیا، حضرت خواجہ صاحب بغداد شریف سے بلخ پہنچے اور مشہور بزرگ حضرت شیخ احمد خزویہ کی خانقاہ میں جلوہ افروز ہوئے اور پھر وہاں چند دن قیام کے بعد سمر قند چلے گئے۔ حضرت خواجہ صاحب جب سلوک و عرفان کی منازل طے کر گئے تو پھر اپنے وطن واپس تشریف لے آئے وطن میں آنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی آپ کے دل میں بیت اللہ و روضہ رسول کی زیارت کی خواہش پیدا ہوئی۔ چنانچہ سفر پر نکلے اور روضہ انور پر جا کر حاضری دی۔ کئی دنوں کی ریاضت و عبادت کے بعد ایک دن دربار رسالتمآب سے حکم ملا معین الدین، تو ہمارے دین کا معین اور مددگار ہے ہم نے تمہیں ہندوستان کی ولایت پر فائز کیا ، جا اور اجمیر میں جا کر قیام کر ،اس لئے کہ وہاں پر گمراہی اور تاریکی پھیلی ہوئی ہے تیرے وہاں پر ٹھہرنے سے لوگوں کے دلوں کا اندھیرا دور ہو گا اور اسلام کی روشنی پھیلے گی۔ حضرت خواجہ صاحب بہت خوش ہوئے ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے اجمیر ہندوستان میں کہاں پر ہے کہ اچانک اونگھ آ گئی۔ حضور پاک کی زیارت سے مشرف ہو کر آپ نے اجمیر کے پہاڑ کو بھی دیکھ لیا۔ چنانچہ آپ خواجہ بختیار کاکی حضرت شیخ محمد یادگار سبزواری اور حضرت خواجہ فخرالدین گردیزی و دیگر اولیائے کرام کے ساتھ لاہور، پٹیالہ، دہلی سے ہوتے ہوئے اجمیر شریف آ گئے۔ حضرت خواجہ بختیار کاکی کو آپ نے دہلی میں تبلیغ اسلام کیلئے چھوڑ دیا اور خود اجمیر تشریف لے گئے۔ ہندوستان اس وقت معاشرتی گراوٹ میں ڈوبا ہوا تھا۔ جہاں نچلے طبقے کے لوگ جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے تھے انہیں اونچی ذات کے لوگوں کے کنوﺅں سے پانی بھرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ حضرت خواجہ غریب نواز جس وقت اجمیر تشریف لائے اور جس جگہ آپ نے قیام فرمایا وہ جگہ سادھوﺅں اور بڑے بڑے مہاتماﺅں کا مسکن تھی۔ آپ یہاں 1192ءمیں آئے تب اجمیر میں چوہان خاندان کا مشہور راجہ رائے پتھواریا پرتھوی راج حکومت کر رہا تھا یہ راجہ اپنے ہم عصر راجاﺅں سے زیادہ طاقت ور اور دلیر تھا اس کی وجہ سے اجمیر سیاسی لحاظ سے بھی مرکزی اہمیت کا حامل تھا جو ہندوستان کے شمال مغرب میں کوہ اراولی کے دامن میں دہلی سے 235 میل دور واقع ہے۔ یہاں آپ کی بے شمار کرامتوں کا ظہور ہوا۔ (حضرت خواجہ معین الدین چشتی) خزینتہ الاصفیاءمیں ذکر ملتا ہے حضرت خواجہ صاحب جب اجمیر تشریف لائے تو آپ نے آبادی سے دور ایک درخت کے نیچے جہاں اجمیر و دہلی کے حکمران راجہ پتھورا کے اونٹ باندھے جاتے تھے اس جگہ قیام فرمایا۔ رات کو جب راجہ کے ملازم اونٹ لے کر آئے اور ایک جگہ درویش کو بیٹھے دیکھا تو کہنے لگے یہ جگہ راجہ کے اونٹوں کیلئے ہے آپ نے فرمایا اچھا ہم یہاں سے اٹھ جاتے ہیں تم شوق سے اونٹوں کو یہاں پر بٹھا لو آپ ایک پہاڑی پر تشریف لے گئے، صبح جب راجہ کے ملازمین نے رات کو بٹھائے اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہ جیسے اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے انہیں مارا پیٹا گیا۔ راہ گیر آتے جاتے یہ سارا ماجرہ حیرت سے دیکھتے ۔ کسی نے جا کے راجہ کو یہ بات بتائی تو راجہ کے حکم کے مطابق ساربانوں نے خواجہ صاحب کے قدموں میں گر کر معافی مانگی۔
آپ نے دو شادیاں کیں جن کی اولاد بھی ہوئی بی بی عصمت اللہ سے آپ کے تین فرزند خواجہ فخرالدین ابوالخیر خواجہ حسام الدین ابوصالح اور خواجہ ضیاءالدین ابوسعید پیدا ہوئے۔ دوسری زوجہ محترمہ امتہ اللہ سے ایک صاحبزادی بی بی حافظہ جمال پیدا ہوئیں۔
سلسلہ چشتیہ کے تبرکات آپ نے خواجہ بختیار کاکی جو آپ کے خلیفہ و جانشیں ہوئے انہیں عطا فرمائے۔ میر العارفین کے مطابق سرزمین اجمیر میں آپ کا قیام چالیس برس رہا۔حضرت خواجہ غریب نواز نے اپنے مکتوبات میں تحریر فرمایا ہے کہ اس فقیر سے ایک خلیفہ اکبر قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ہوئے جبکہ 65 خلفائے اصغر اور 55 خلفائے مجاز ہوئے ہندوستان میں آپ کے ہاتھوں لاتعداد گمراہ لوگ مسلمان ہو کر سلسلہ چشتیہ میں داخل ہوئے۔ برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوو¿ں دونوں میںآج بھی آپ کیلئے بے پناہ عقیدت پائی جاتی ہے۔ خواجہ غریب نواز کا وصال اجمیر شریف میں 6 رجب بروز پیر 633ھ بمطابق 1235ءمیں ہوا ۔اس وقت ہندوستان میںسلطان شمس الدین التمش کی حکومت تھی۔ اجمیر شریف میں کئی سال توحید کا درس دینے والا مرد کامل جس نے اپنی زندگی کا آدھے سے زیادہ عرصہ ، بلکہ پوری زندگی ہی دین کی تبلیغ کیلئے وقف کر دی اجمیر شریف میں آپ کا مزار مقبول خاص و عام ہے۔جہاںہر سال آپ کا عرس عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔