سحر انگیز شخصیت ”ذوالفقار علی بھٹو شہید“گلشن سیاست ویران ہو گیا

خالد کاشمیری
یہ 4 اور 5 جولائی 1977ءکی درمیانی رات کو قریباً بارہ بجے طالع آزماﺅں نے پاکستان میں جمہوری بساط کو لپیٹ دیا تھا اور جنرل ضیاءالحق نے اس آمرانہ تماشا کو آپریشن فیئر پلے سے منسوب کیا،5 جولائی کی علی الصبح ذوالفقار علی بھٹو کو وزیراعظم ہاﺅس راولپنڈی سے بذریعہ کا فوج کے دستے کی معیت میں مری پہنچا کر وہاں وزیراعظم ہاﺅس میں نظر بند کر دیا گیا جبکہ جنرل ضیاءالحق کے حکم پر بیگم نصرت بھٹو کو ان کے بچوں کے ساتھ 70 کلفٹن کراچی میں نظر بند کر دیا گیا۔ انہیں 5 جولائی کی دوپہر کو بذریعہ طیارہ فوج کی نگرانی میں اسلام آباد سے کراچی پہنچایا گیا اور کراچی میں ان کی اقامت گاہ کے باہر کوسٹ گارڈ کا پہرہ لگا دیا گیا جبکہ اقامت گاہ کے تمام ٹیلی فون کاٹ دیئے گئے۔ 5 جولائی 1977ءکی شام سات بجے جنرل ضیاءالحق نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر تقریر کی جس میں انہوں نے قوم کو دھوکہ دینے کے لئے یہ جھوٹ بولا تھا کہ وہ انتخابات کرانے آئے ہیں۔
مری کے وزیراعظم ہاﺅس میں نظر بند سابق وزیراعظم بھٹو سے عام لوگوں سے ملنے کی مارشل لاءحکام نے اجازت دے رکھی تھی۔28 جولائی 1977ءکو ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاءالحق کے حکم پر رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد بھٹو بذریعہ طیارہ لاڑکانہ پہنچے، اگلے روز وہ وہاں سے کراچی چلے گئے ۔ 8 اگست کو ملتان سے ہوتے ہوئے بھٹو جب لاہور پہنچے ہر جگہ ان کا تاریخی نوعیت کا استقبال معمول بن چکا تھا۔ لاہور میں صادق حسین قریشی کی اقامت گاہ واقع شادمان میں انہوں نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”میں سب جانتا ہوں کوئی بات مجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہے میری جان کو خطرہ ہے اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو مجھے معلوم ہے کہ اس کی کوئی گواہی بھی نہیں دے گا کیونکہ اس میں بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہو گا میں نے پہلے بھی بیرونی طاقتوں کا مقابلہ کیا ہے اور اب بھی اس کے لئے تیار ہوں۔
اس کے بعد 3 ستمبر 1977ءکو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں سحری کے وقت فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے سات افسروں نے سینکڑوں مسلح افراد کے ساتھ 70 کلفٹن کراچی سے ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا۔ سرکاری اعلان کے مطابق ان کی گرفتاری 11 نومبر 1974ءمیں سابق رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں دفعہ 120-302 (سازش جرم) اور 109 (اعانت جرم) کے تحت عمل میں آئی تھی۔ 13 ستمبر 1977ءکو لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج کے ایم صمدانی نے انہیں پچاس ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا۔
اپنی رہائی کے فوراً بعد بھٹو نے لاہور میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر انتخابات مقررہ وقت پر نہ ہوئے تو پاکستان میں اتنا سنگین بحرن ہو گا کہ اس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہ ہو گا۔ اگلے روز بھٹو کراچی چلے گئے جہاں اگلے روز وہ عید منانے اپنے گھر لاڑکانہ پہنچے مگر 17 ستمبر 1977ءکی صبح ساڑھے تین بجے انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اسی دوران جنرل ضیاءالحق کی ہدایات پر لاہور ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مشتاق حسین نے جناب بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کی سماعت کیلئے ازخود پانچ ججوں پر مشتمل ایک سپیشل جج تشکیل دے دیا۔
جنرل ضیاءالحق نے یکم اکتوبر 1977ءکو عام انتخابات ملتوی کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی کا اعلان کر دیا۔
18 مارچ کو سپیشل بنچ نے سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سنا دی۔
لاہور ہائیکورٹ کے سپیشل بنچ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہونے پر 17 مئی 1978ءکو جناب بھٹو کوٹ لکھپت جیل سے سنٹرل جیل راولپنڈی منتقل کر دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ میں جناب بھٹو کی اپیل پر جو کھیل کھیلا گیا‘ وہ عدلیہ کی تاریخ کا محیرالعقول واقعہ ہے۔ اکتوبر 1978ءمیں اپیل کی سماعت کا آغاز ہوا۔ 6 مارچ 1997ءکو چیف جسٹس انوارالحق نے اپیل مسترد کر دی اور لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے بھٹو کی سزائے موت کو بحال رکھا۔ فیصلے میں حق میں چار اور اس کی مخالفت میں تین ججوں نے رائے دی تھی۔
13 فروری 1979ءکو وکلاءنے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست داخل کر دی۔ عدالت نے اس کے پیش نظر سزا کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا اور 24 فروری 1979ءکو نظرثانی کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی۔ ایسے میں دنیا بھر کے سربراہان مملکت کی طرف سے مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کے نام تحریری طورپر بھٹو کی سزا ختم کرنے کی اپیلیں کی گئیں مگر 24 مارچ 1979ءکو سپریم کورٹ نے اپنا آخری فیصلہ سنا دیا جو اس کے پہلے فیصلے سے مختلف نہ تھا۔
اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کو 3 اور 4 اپریل کی رات کے آخری پہر راولپنڈی سنٹرل جیل میں مارشل لاءحکام نے تختہ دار پر لٹکا دیا اور 4 اپریل 1979ءکی صبح مارشل لاءحکام کی ہدایت پر انتہائی خاموشی کے ساتھ فوجی افسر کی معیت میں شہید بھٹو کے جسد خاکی کو ایک فوجی ہیلی کاپٹر پر چکلالہ کے ہوائی اڈے سے لاڑکانہ روانہ کیا جا رہا تھا۔ خاصی تیز بوندا باندی ہو رہی تھی۔ غالباً آسمان بھی اشکبار تھا۔ گڑھی خدا بخش قبرستان فوجی دستے کے پہرے میں تھا۔ ماحول پر وحشت سی طاری تھی۔ کرفیو کا سماں تھا۔ اس ہو کے عالم میں فوجی سپاہیوں کے حصار میں گاﺅں والوں نے نمازجنازہ ادا کی اور پھر اس شہید جمہوریت کو اپنے والد سر شاہنواز بھٹو کے پہلو میں سپردخاک کر دیا گیا۔
تدقین ایسے حالات میں ہوئی کہ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو پابند سلاسل تھیں۔ مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو لندن میں تھے۔ شہید کی اہلیہ اور بیٹی تو وطن میں موجود تھیں‘ لیکن ایک آمر مطلق خدا بن کر شہید کے اہل خاندان کو اپنے سربراہ کا صحیح ثابت دمکتا ہوا چہرہ نہ دیکھنے دیا اور پھر اب ذوالجلال کا جلال بھی اہل وطن نے دیکھا کہ اہل خاندان کو آخری دیدار کیلئے روکنے والا تو کوئی نہ تھا مگر وہاں دیدار کیلئے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔

ای پیپر دی نیشن