بھٹو حیات ہے

پیپلز پارٹی کے جیالوں کا نعرہ جب بینظیر بھٹو کودیکھتے تھے تب بھی یہی نعرہ گونجتا اور اب جب بلاول بھٹو کو سیاست کے میدان میں سٹیج سجائے دیکھتے ہیں تو ایک ہی نعرہ گونجتا ہے۔جب مات ہو کہیں تو بھی اور جب فتح کے جھنڈے گاڑھیں تب بھی۔ زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے کے نعروں سے فضا گونج جاتی ہے۔ ایک ایسا لیڈر جس کو جیل کی کال کوٹھری سے پھانسی دے دی گئی اور جنازہ چند لوگوں نے پڑھا آخر کیونکر عوام کے دلوں میں زندہ ہے؟
قائداعظم محمد علی جناح کے بعد اگر کسی سیاسی لیڈر کو اتنا چاہا گیا، اتنا سراہا گیا تو وہ صرف قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ بھٹو کی سیاست ایک نظریہ، ایک فلسفہ کا جنم تھی جس نے پاکستان کے پسے ہوئے طبقے کو امید کی کرن دکھائی۔ ایک ایسا عوامی لیڈر جس نے غریب کسان اورمزدور کے حق کی بات کی جس نے ہاری کو زمین کا مالک بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو جو کہ ایک غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی ماں کا بیٹا تھا اس لئے ان کے دکھوں کو محسوس کر سکتا تھا۔ دوسری طرف ایک امیر اور جاگیردار شاہنواز بھٹو کی اولاد جس نے اس طبقے کے خلاف جنگ کا طبل بجایا۔
جب قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کر رہے تھے 17 سال کی عمر میں بھٹو نے قائداعظم کو خط لکھا۔ ’’ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ آپ ہمارے قائد ہیں آپ نے ہم سب کو ایک پلیٹ فارم اور ایک پرچم تلے متحد کر دیا ہے اور اب ہر مسلمان کی آواز پاکستان ہونا چاہئے۔ ہماری منزل اور مقصد صرف پاکستان ہے ہم نے آپ کے اندر ایک قابل رہنما پا لیا ہے‘‘ اور پھر دوسری جگہ پر اپنے مستقبل کے کردار کے بارے میں لکھتے ہیں۔’’ابھی ایک سکول طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اپنے مقدس وطن کے قیام کے سلسلے میں کوئی مدد کرنے کے قابل نہیں ہوں، لیکن ایک وقت آئے گا جب میں اپنے پاکستان کے لئے جان کی قربانی دوں گا میرا تعلق صوبہ سندھ سے ہے بیشک صوبہ سندھ بھی اس سلسلے میں مشکلات پیدا کر رہا ہے لیکن انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جب بندہ بھی پاکستان کے لئے اپنا کردار ضرور ادا کرے گا‘‘۔بھٹو صاحب نے پاکستان کی سیاست میں کلیدی کردارادا کیا، پہلی بار جب کابینہ کے رکن بنے تو سب سے کم عمر ترین تھے۔ وزیر پانی بجلی، اطلاعات اور پھر وزیر خارجہ بنے۔ وزارت خارجہ میں جس طرح سے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک سربلند ملک اور غیور قوم کے طور پر متعارف کروایا۔ روس سے معاشی اور تکنیکی معاونت پاکستان کے لئے حاصل کی۔ پاکستان کو امریکی تسلط سے بالادستی اور انڈیا کو امریکہ کی سپورٹ پر تنقید کی، چائنہ کے ساتھ مضبوط تعلقات کی بنیاد کا سہرا بھی شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام، 1973ء کا آئین، پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بانی، پوری دنیا کے مسلمان ممالک کو ایک جھنڈے تلے اکٹھے کرنے کا ایجنڈا بھی بھٹو صاحب کے سر جاتا ہے۔
مغربی قوتیں پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی تھیں، ایک مضبوط لیڈر ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ بھٹو صاحب کا سیاسی قتل کر دیا گیا۔ ان کو جس مقدمے میں پھانسی دی گئی اس کے بارے میں کبھی کسی جج نے آج تک ریفرنس یا مثال نہیں دی۔بلاشبہ جسم فانی ہے دنیا کی طرح لیکن روح کو حیات ہے، نظریہ کو حیات ہے، خیال کو حیات ہے، کردار کو حیات ہے، تاریخ رقم کرنے والے بھی کئی ہوتے ہیں لیکن تاریخ میں زندہ رہنے والے بہت کم۔
کبھی قتل ہو گئے دار پر
کبھی خوں گرا سر راہ پر
میں وہ نام ہوں جو گراں ہوا
میرے چارہ گر کے مزاج پر
کبھی بے وطن، کبھی بے نشاں
کہیں قید و بند، کہیں ٹکٹکیاں
سجا پھر بھی میلہ عاشقاں
میری خاک و جاں کے مزار پر
میرا نام تو رہا جاوداں
تیری قبر عبرت دشمنان
تو فضائوں میں کہیں مٹ گیا
میں ذوالفقار حیات پر

ای پیپر دی نیشن