زندہ وجاوید…بھٹو

پاکستانی تاریخ میں نصف صدی کے دوران میں جس نے عوامی حمایت حاصل کی وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے جان نثار کارکن(جیالے) انہیں شہید کا درجہ دیتے ہیں۔3 اپریل راولپنڈی جیل میں بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے آخری ملاقات جو کہ تیس منٹ کی تھی،اس ملاقات میں آخری مکالمہ جو کہ ایشیاء کے عظیم انسان اور عوامی لیڈرکے بھٹو اپنی بیگم اور لاڈلی بیٹی جس کو پیار سے ’’پنکی‘‘ کہتے تھے،سفاک ترین انسان کا دل پھاڑنے کے لئے کافی تھا۔نواب ابن نواب اور وزیر اعظم ابن وزیر اعظم کس اذیت ناک صورتحال کا سامنا کریں گے’’اس کا اندازہ نہ تھا‘‘۔ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی 70 سالہ تاریخ اور بر صغیر کی 200 سالہ تاریخ میں جنوبی ایشیا میں پہلی بار ایک ایسا نظریہ پیش کیا اور اسکا عملی مظاہرہ بھی کیا۔سرمایہ داروں ،جاگیرداروںاورنوابوں کی دھرتی پر پہلی بار محنت کش،مزدور اورہاری کو زبان ملی،اس نے ایسا شعور دیا کیا کہ سب انسان برابر ہیں،اپنے حق کے لئے کھڑا ہو،پاکستان میں پہلی بار اس کے ووٹ اور آواز کو عزت ملی۔کرنل رفیع جو کہ جیل میں بھٹو صاحب کی نگرانی پر معمور تھے اس نے بتایا کہ جب پھانسی کا حتمی فیصلہ ہوا تو بھٹو نے شیو کرائی ،جیل کے حجام نے شیو کی تو بھٹو نے اس وقت حجام کو 100 روپے دئیے،تو حجام نے انکار کیا تو ذوالفقار علی بھٹونے کہا کہ رکھ لو میں تم اور تم جیسے غریبوں اور محنت کشوں کے لئے پھانسی لگنے جا رہا ہوں۔کرنل رفیع نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ایک دن بھٹو نے ایک اخباری بیان کے بارے میں بتایا کہ مرزائیوں کے راہنما نے کہا کہ بھٹو نے مرزائیوں کو کافر قرار دیا اس لئے نشان عبرت بن گیا،قید تنہائی کاٹ رہا ہے،پھانسی لگ جائے گا۔ذوالفقار علی بھٹونے کرنل رفیع کو کہا کہ میں ایک بہت گناہ گار انسان ہوں مگر میں نے زندگی میں ایک ایسا کام جو کہ مرزائیوں کو کافر قرار دیا ،ختم نبوت کا قانون بنوایا ،یقینا میری نجات کا ذریعہ ہو گا،انشاء اللہ مجھے حضور کریم ؐکی شفاعت نصیب ہو گی،ذوالفقار علی بھٹومر کر ’’زندہ جاوید‘‘ ہو گیا۔
بے نظیر بھٹو اپنی یاداشت میں اپنے والد سے آخری ملاقات کا لکھتی ہیں جو کہ 3 اپریل کو راولپنڈی سینٹرل جیل میں ہوئی، بابا نے کہا کہ آج آپ دونوں ماں اور بیٹی اکٹھے کیوں آئے؟،والدہ خاموش تھیں ان میں جواب دینے کی سکت نہ تھی،ذوالفقار علی بھٹونے کہا کہ لگتا ہے کہ آج آخری ملاقات ہے،بھٹو صاحب نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھا تو اس نے تصدیق کی تو بھٹو صاحب نے پوچھا کہ ملاقات کے لئے کتنا ٹائم ہے تو بتایا کہ صرف 30 منٹ،بھٹو صاحب نے پوچھا کہ تاریخ کنفرم ہے تو جیلر نے کہا کہ ہاں کل صبح یعنی 4 اپریل 5 بجے،بھٹو صاحب نے جیلر سے پوچھا کہ تم کو کب اطلاع ملی تو اس نے کہا کہ گذشتہ رات کو، ملاقات جو کہ آخری تھی اور صرف 30 منٹ کے لئے تھی،بھٹو صاحب نے جیلر سے کہا کہ میرا سامان اور غسل کے لئے اہتمام کرو۔بھٹو نے کہا کہ دنیا بہت خوبصورت ہے،(I want to say Good Bye to this world in a same way)۔بے نظیر نے بتایا کہ ’’بابا‘‘ نے ’’ماما‘‘کو کہا کہ میرا پیار بچوں کو دینا اور کہنا ’’میر‘‘، ’’سنی‘‘، اور ’’شاہ‘‘ جو کہ تین بچوں کے ’’Nikname ‘‘ تھے ،میری خواہش تھی کہ بچوں کو خدا حافظ کہتا اور کہا کہ آپ دونوں نے آج بہت سی تکالیف اور مشکلات کا سامنا کیا ،یہ لوگ مجھے مار دیں گے،میں آپ کو آپ کی خواہش پر چھوڑتا ہوں کہ آپ پاکستان چھوڑ کر یورپ چلے جائیں ،جب تک آئین معطل ہے اور ملک میں مارشل لاء ہے یا پھر آپ پاکستان میں رہیں،آپ کو اجازت ہے کہ یورپ جا کرنئی زندگی اور جدوجہد شروع کریں۔والدہ نے کہا کہ ہمارے دل رو رہے ہیں،مگر ہم ڈکٹیٹر کو یہ احساس نہیں ہونے دیں گے کہ ہم نے اپنی جنگ ہار دی اور سیاسی جدوجہد چھوڑ دی۔’’بابا‘‘ نے کہا (What about you Pinky? ) محترمہ نے کہا کہ میں بھی پاکستان سے کہیں نہیں جائوں گی،بھٹو صاحب نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں ،تم نہیں جانتی کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں،ہمیشہ میرے لئے پیاری تھی،اور ہمیشہ رہی ہو،جیلر نے کہا ملاقات کا وقت ختم ہو گیا۔محترمہ نے کہا کہ جب میں نے جیلر کی آواز سنی تو جیل کی سلاخیں مظبوطی سے پکڑ لیں اور جیلر سے التماس کی کہ جیل کا دروازہ کھول دو میں اپنے بابا سے ملنا چاہتی ہوں مگر جیلر نے انکار کیا دوبارہ کہا مگر انکار کیا،جیل کی سلاخیوں سے اپنے بابا کے ہاتھ تھام لئے،میں نے کہا کہ میرے والد پاکستان کے وزیر اعظم تھے ،میں ان کی بیٹی ہوں آخری ملاقات ہے، والد حوصلے اور ہمت سے کھڑے ہوئے،میرا ہاتھ پکڑا اور مسکرا کر کہا کہ آج ہر غم فکر سے آزاد ہوں،آج اپنے اللہ سے ملاقات ہو گی۔اپنے والد اور والدہ سے ملوں گا ،اپنی اصل جگہ جائوں گا،لاڑکانہ جہاں والد اور والدہ دفن ہیں،والد نے کمزور آواز سے خدا حافظ کہا ،ہم پیچھے دیکھے بغیر باہر آگئی،میں نے محسوس کیا کہ ہم پتھر کے ہیں۔شاید ہی پاکستان میں ایسی صورت کا شکار کوئی سیاسی خاندان ہوا ہو،ذوالفقار علی بھٹوکی آزمائش یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ 4 اپریل کو اصل سفر شروع ہوا، ذوالفقار علی بھٹوکاخاندان 4 بچوں میں سے تین کو قتل کر دیا گیا۔بیگم نصرت بھٹو صدموں کا شکار ہو کر فوت ہو گئیں پیپلز پارٹی کی داستان شہادتوں اور قربانیوں کا سفر ہے۔صرف اگر دیکھا جائے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا قصور کیا تھا؟،ان کی لاڈلی اور پیاری بیٹی کا قصور کیا تھا؟،آخر ایسی کون سی قوت ان سے خائف تھیں۔امریکن کیوں ان کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے؟،ذوالفقار علی بھٹونہ صرف پاکستان کے لیڈر تھے،بلکہ عالم اسلام کو ایک حقیقی اور درست سمت دی۔پاکستان پیپلز پارٹی اپنے منشور اور فلسفے سے دور ہو گئی۔آج اگر تجدید عہد کا دن ہے تو کم از کم ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات کو زندہ کریں۔
ذوالفقار علی بھٹوجب صرف 7 سال کے تھے تو اپنے والد سرشاہ نواز کے ہمراہ اپنے بڑے بھائی جو کہ سوتیلے تھے،وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کو ملنے گئے تو والد نے اپنے بڑے بیٹے کا تعارف کرایا اور ملایا تو بڑے بیٹے بہت عزت اور احترام سے ملے۔جیسے اپنے حکمران کو غلام ملتے ہیں،مگر جب ذوالفقار علی بھٹو کا تعارف ان کے والد نے کرایا اور کہا کہ’’زلفی‘‘ہاتھ ملائو تو بھٹو صاحب نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انگریزوں کے ہاتھ ہمارے لوگوں کے خون سے آلودہ ہیں میں نہیں ملوں گا۔تو وائسرائے ہند نے کہا کہ آپ کا بیٹا بہت بڑا انقلابی لیڈر بنے گا۔لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں،ان میں خداداد صلاحیتیں ہوتیںہیں،خاندان اور سیاسی تربیت اور پرورش کا بھی اثر ہوتا ہے۔
جب جان ایف کینڈی صدر تھے،ذوالفقار علی بھٹونے اپنی ملاقات میں امریکی صدر کو بہت متاثر کیا ،بھٹو نے امریکہ صدر کو مشورہ دیا کہ جنوب ایشاء میں اگر امریکہ اپنا حلیف پارٹنر رکھنا چاہتا ہے تو بھارت کو نہ رکھے جو کہ مکار اورفریب پر اپنا سیاسی ایجنڈا بناتا ہے، بھارت کی سیاست کی بنیاد جھوٹ ہوی ہے،امریکہ اپنا پارٹنر ’’چین‘‘ کو بنائے جو کہ نیا نیا آزاد ہوا تھا ،امریکی صدر بھٹو کی بریفنگ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ کاش تم امریکن ہوتے تو میں تم کو اپنا وزیر اعظم بناتا ،بھٹو مسکرائے اور کہا کہ مسٹر President اگر میں امریکن ہوتا تو میں آپ کی جگہ امریکہ کا صدر ہوتا۔امریکہ صدر نے قہقہہ لگایا اور اپنے ہر آنے والے مہمان کو بھٹو کا قصہ سناتے تھے۔

ای پیپر دی نیشن