قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا عدالتی قتل اگر صرف ایک فرد کا قتل ہوتا تو شائد تاریخ اسے فراموش کر دیتی مگر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک فکر اور نظریہ کو ختم کرنے کی کوشش کا آغاز ہوا۔ مگر انسانی تاریخ گواہ ہے کہ نخل دار پر جب کبھی عشاق کے سروں کو سجایا گیا تو مارنے والا مر گیا اور مارے جانے والا امر ہو گیا جناب مسیحؑ ، منصور، سرمد اور امام حسینؑ نہ صرف جرات و حق کا استعارہ ہیں بلکہ لافانی حقیقت کی دلیل ہیں۔ تختہ دار پر بھٹو کی روح یہی اعلان کر رہی تھی کہ میں تمہیں صلیبوں، خنجروں اور نیزوں پر بلند سروں میں نظر آئوں گا۔ قائداعظم کی قیادت میں پاکستان کا قیام ایک آئینی ریاست کی بنیاد تھی جو مذہبی آزادی، معاشی مساوات آزاد خارجہ پالیسی کے ذریعہ فلاحی ریاست بنتی مگر 25 سال تک پاکستان کو ان بنیادی اصولوں سے دور رکھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سٹیٹس کو، کو چیلنج کیا اور مصنوعی قیادت کو للکارا وہ جانتے تھے کہ ’’قائد وہ نہیں ہوتا جو تقلیدی پیدا کرے بلکہ وہ قائدین پیدا کرتا ہے۔‘‘ لہٰذا بھٹو صاحب اس مشن پر قریہ قریہ گائوں گائوں عوام سے رابطہ استوار کرنے لگے وہ ایک بلند پایہ دانشور مفکر مدبر اور مقرر تھے اُن کی تقریر لوگوں پر سحر طاری کر دیتی اُن کی شاعری جیسی باتیں عوام کے دلوں کے تاروں کو چھو جاتی جس سے اُن کا جذبہ اور جنون آسمان کی بلندیوں تک پہنچا اور عوام زمینی ناخدائوں سے ٹکرانے پر تیار ہو گئے۔ بھٹو صاحب نے عوام کو جمہوریت کے بارے میں بتایا کہ ’’جمہوریت بہار کے پھولوں کی خوشبوئوں سے معطر ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ آزادی کی ایسی دھن ہے جسے شائد چھوا نہ جا سکے مگر اس کا احساس بہت توانا ہے۔ اس احساس سے آگے بڑھ کر جمہوریت بنیادی حقوق کا نام ہے۔ یہ حق رائے دہی کے ذریعہ آتی ہے جس کے لئے ووٹ کی حرمت لازم ہے۔ آزادی اظہار رائے حق اجتماع و تنظیم عدلیہ کی خود مختاری، پارلیمان کی بالا دستی حکومت کی مستعدی اور دوسرے بنیادی اصول ہی جمہوریت کہلاتے ہیں۔‘‘ وہ بھٹو صاحب کو اپنا حقیقی و اصولی دوست مانتے تھے اور تاریخ نے یہ ثابت کیا۔
انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ نہایت قلیل عرصہ میں عوام نے قائد عوام کی قیادت میں متفقہ آئین، سماجی و سیاسی انقلاب معاشی مساوات، آزاد خارجہ پالیسی اور ایٹمی پروگرام کے ذریعہ پاکستان کو اُس کے قیام کے اصولوں کے عین مطابق ڈھال دیا۔ بکھرا اور ٹوٹا پاکستان صرف چند سالوں میں خوشحال ترقی یافتہ اور پرامن پاکستان بن چکا تھا اور عوام کی خود مختاری کا سفر تیزی سے جاری تھا۔ عالمی استعمار اور اُن کے غلاموں کیلئے یہ ناقابل برداشت تھا کہ بھٹو صاحب نے چند سالوں میں سیاسی سماجی معاشی اور عسکری ڈھانچہ نہ صرف تشکیل دیا بلکہ یہ مضبوط ہونے لگا حکومت بنانے اور ختم کرنے کا اختیار عوام کو منتقل ہو گیا۔ مذہبی و لسانی تعصبات ختم ہونے لگے سندھ کی دھرتی کا سپوت پنجاب کا سب سے مقبول قائد تھا اور ہر قومیت اُسے اپنا رہنما مانتی تھی۔ فرقہ واریت کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ خلق خدا شہباز قلندر اور علی ہجویری کے مزاروں پر نصب سونے کے دروازوں سے گزرتے ہوئے مذہبی تعصبات سے آزاد ہو کر کندن بن رہے تھے۔ بلھے شاہ کی فکر اور بھٹو صاحب کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان حقیقت کا روپ دھار رہا تھا کیونکہ عوام ریاست کی ترجیح قرار پائے اور لاکھوں لوگوں کو اندرون ملک اور بیرون ملک روزگار میسر آیا۔ جالب کا بیس گھرانوں کے خلاف کرودھ ریاستی پالیسی بنا اور معاشی مساوات کا نظام قائم ہوا۔ فیض کی امید برآیٗ اور خلق خدا کا راج قائم ہوا۔ مصور پاکستان علامہ اقبال کا خواب پہلی بار حقیقت بنا اور غریب جاگ گیا۔ بھٹو صاحب کی شاندار خارجہ پالیسی ہماری تاریخ کی کامیاب ترین خارجہ پالیسی قرار پائی۔ ہمسائیوں سے بہترین تعلقات قائم ہوئے۔ بھارت کے ساتھ ہونے والے شملہ معاہدے نے دونوں ملکوں کے درمیان دیر پا امن کی بنیاد رکھی اور برصغیر اُس کے بعد آج تک جنگ سے محفوظ ہے۔ پاکستان عالم اسلام اور تیسری دنیا کے مماک کا رہنما بن کر اُبھرا۔ روشنیوں کانقیب ذوالفقار علی بھٹو خورشید پاکستان بن گیا اور ملک کا ذرہ ذرہ چمکنے لگا۔ اندھیروں کے پجاری خورشید کو شہید کرنے کی سازش بنانے لگے۔ آج سے ۹۳برس قبل ’’جہل کی رات‘‘ کا چنائو ہوا۔ راہنما قتل ہوا اور نظریہ کو قتل کرنے کا سفر اپنے تیئں جاری رہا۔
طالع آزما آئین کو ’’چند کاغذوں کا ٹکڑا‘‘ اقراردے کر ختم کرنے کے در پے رہے۔ جمہور کے فیصلہ کو دبانے کیلئے مذہبی لسانی اور گروہی تعصبات کو اُبھارا گیا ۔ ذات برادری اور سرمائے کی بنیاد پر سیاست کی حوصلہ افزائی ہوئی اور حقیقی سیاسی کارکنوں کی حوصلہ شکنی تاکہ عوام کو جمہوریت اور سیاست سے بیزار کیا جا سکے ان سب سازشوں کے خلاف اگر کوئی نہتی لڑکی’’میں باغی ہوں‘‘ کا اعلان کرے اور عوام الناس کو دوبارہ متحد کرلے اور لوگ پکارنے لگیں!’’ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر‘‘ تو اُس زنجیر کو توڑ کر وفاق توڑنے کی سازش کی جاتی ہے۔ مگر اک مرد حُر ’’پاکستان کھپے’’ کا مرہم لگا کر وفاق کے زخم بھرتا ہے او ر فرزند بے نظیر دھرتی کو انتقام کی آگ میں جلانے کی بجائے’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کے ذریعہ جدوجہد کا اعلان کرتا ہے تو سازشیں مزید گہری ہو جاتی ہیں۔ کفر اور غداری کی سندیں بٹنے لگتی ہیں’’کبھی بہ خیلہ مزہب اور کبھی بنام وطن‘‘
پاکستان جناح کے ویژن اور بھٹو کے فلسفہ سے دور ہو چکا ہے۔ آئین کو وقعت نہیں دی جا رہی۔ جمہوریت کو فراموش کرکے بادشاہت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ عام آدمی کا پارلیمان کا رکن بننا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ واحد وفاقی سیاسی جماعت کے خلاف سازشیں جاری ہیں تاکہ وفاق کی علامت کو ختم کیا جا سکے۔ ریاست کی ترجیح عوام کی بجائے چند خاندان ہیں۔ ناکام ترین خارجہ پالیسی کے ذریعہ ملک کے وقار کو دائو پر لگادیا گیا ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور معدوم ہو کر سکیورٹی سٹیٹ کا تصور اپنا لیا گیا ہے۔ رجعت پسندی انتہاپسندی سے ہوتی ہوئی دہشت گردی کا روپ دھار چکی ہے۔ معلوک الحال عوام کی اُمیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
گزشتہ39 سالوں کا ہر لمحہ ثابت کر رہا ہے کہ تختہ دار پر تو بھٹو تھا مگر قتل آئین ہوا، قربان ملک کا وقار ہوا، پھانسی برداشت اور امن کو ہوئی آخری سانسیں جمہوریت نے لیں۔ مردہ تو وفاق کے عوام کا جذبہ و جنون ہوا اور آج تک سولی پر عوام کا حق حکمرانی لٹک رہا ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ بھٹو تو زندہ ہے ضرورت اُس کے فلسفہ اور افکار کو اپنے اندر زندہ کرنے کی ہے کہ
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
تو رازِ کن ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز راں ہو جا خد ا کا ترجماں ہوجا
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
Apr 04, 2018