ـــ"زندہ ہے بھٹو زندہ ــ"کے نعرے نے جہاں کروڑوں سیاسی کارکنوں کی بے لوث سیاسی جدوجہد کو جلا بخشا ہے وہیں غاصبوں آمروں اور اُن کی کٹھ پتلیوں کے لیے خوفناک حد تک نا قابل برداشت ہے۔ شرکی قوتیںجن کے لیے بھٹو کی زندگی اُن کے عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی 40سال قبل بھٹوکو جسمانی طور پر ختم کر کے سمجھ رہی تھیں کہ اب بھٹو اور بھٹو ازم ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا ہے لیکن یہ جاہل اتنا نہ سمجھ سکے کہ اصل خطرہ ذوالفقار علی بھٹو نہیں بلکہ"بھٹو ازم "ہے یعنی آپ کسی فرد کو تو قتل کر سکتے ہیں مگر اُس کی فکر کو ختم نہیں کر سکتے لہٰذا جن کے لئے ذولفقار علی بھٹو ایک فرد ہے شائد ان کے لئے وہ زندہ نہ ہو لیکن جن کے لئے بھٹو ایک فکر، نظریہ اور فلسفہ ہے ان کے لئے وہ زندہ ہے اور ان کی جہد مسلسل میں زندہ رہے گا۔ بھٹو شہید کی فکر اور سوچ کیا تھی اور ان کے مخالفین کون تھے۔ خود بھٹو صاحب ان سے یوں مخاطب ہوتے ہیں!"میرا مقام ستاروں پر رقم ہے۔ میرا مقام بندگان خدا کے دلوں میں ہے۔ میں محکوموں اور محنت کشوں کا نمائندہ ہوں اور تم امیروں کی نمائندگی کرتے ہو۔ میں ادارے بنانے پر یقین رکھتا ہوں اور تم انھیں ہتھیانے کے متمنی ہو۔ میں ٹیکنالوجی پر یقین رکھتا ہوں۔تمہارا ایمان ریاکاری پر ہے ۔ میرا دستور پر یقین ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ دستور کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں ملا کا مقام مسجد ہے تم اسے پاکستان کا مالک بنادینا چاہتے ہو۔ میںخواتین کی آزادی چاہتا ہوں تم انھیں اندھیرے میں چھپائے رکھنا چاہتے ہو۔ میں نے سرداری نظام ختم کیا تم اسے بحال کرنا چاہتے ہو۔میں مشرق پر یقین رکھتا ہوں۔ تم مغرب کے کاسہ لیس ہو۔ جب تم پاکستان کی سلامتی کی بات کرتے ہو تو براہ کرم ہمیں بتائو کہ تم پاکستان کو غرناطہ بنانا چاہتے ہو یا کربلا"۔ بھٹو شہیدپاکستان کو جدید فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جبکہ ان کے مخالفین اس کو سکیورٹی سٹیٹ بنانے پر بضد، یہی بنیادی اختلاف رہا ہے۔ ان قوتوں نے ریاست میں سیاسی ، جمہوری اور فلاحی بیانیہ کو ہمیشہ کمزور کیا جس سے ملکی حالات غرناطہ و کربلا کا نقشہ پیش کرنے لگے یوں نصف صدی سے " فکر بھٹو" کے مخالفین اسے ختم کرنا چاہتے ہیں مگر کاروان بھٹو رواں دواں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کو چار دہا ئیا ں گزر چکی ہیں اور ان چالیس سالوں میں شہید بھٹو کی فکر کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ملک کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے جس نے عالمی سطح پر پاکستان کے ترقی پسند خوشحال ریاست کے تصور کو پامال کردیا ہے۔ فرقہ واریت اور تعصب مذہب و سیاست میں سرایت کرچکے ہیں۔ افغا ن جہاد کے نام پر آنے والے ڈالروں نے معیشت کو کیا سنبھالنا تھا اس "مقدس جنگ"نے ہماری معشیت اور سماج کو تہس نس کر کے رکھ دیا ہے۔ بھٹو دور میں کرپشن کا نام و نشان تک نہ تھا مگر بھٹو ازم کو ختم کرنے کے لئے ضیا ء آمریت کی چھترچھایہ میں کرپشن کی بنیادیں ایسی مظبوط کی گئیں کہ آج سیاست و کرپشن کو لازم و ملزوم گرد انا جارہا ہے۔ سیاست کو عبادت کی بجائے مکر و فریب اور ریاکاری میں تبدیل کیاجارہا ہے۔ وفاقی جمہوری سیاست کی صوبائی تعصب اور قومیتی منا فرت میں تبدیلی کا عمل آج بھی جاری ہے۔ عوامی سیاست کو ، جو کہ اخوت کی پیامبر تھی ، نفرت کے سونامی میں ڈھال کرنئی نسل کو عدم برداشت اور نفرت کا یرغمال بنادیا گیا ہے۔ قائد عوام کی منتخب آئینی جمہوری حکومت کو ختم تو کیا جاسکتا ہے مگر دلوں سے بھٹو کی حکمرانی ختم نہیں کی جا سکی۔ ذولفقا ر علی بھٹو کے کارنامے اورملک و قوم کے لئے خدمات بے شمار و ان گنت ہیں مگر آج یہ ریاست (ہمالیائی غلطیوں کے باوجود) جن دوستونوں پر کھڑی ہے وہ دونوں شہید بھٹوکے مرہو ن منت ہیں۔ پہلا ستون1973کا متفقہ آئین ہے جو ریاست کی Internal Securityکی بنیاد ہے ۔ اور دوسری ہماری ایٹمی طاقت ہے External Securityکو یقینی بناتی ہے۔ اگر یہ دونوں نہ ہوتے تو خدانخواستہ اس ریاست کو قائم رکھنا ناممکن تھا۔اسی طرح "مودی کا بھارت"جب بھی جارحیت کا ارتکاب کرنے کا سوچتا ہے تو ایٹمی پاکستان کا تصور اس کے ارادوں کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ 1971ئ کے اور آج کے پاکستان میں سب سے بڑا فرق آئین اور ایٹمی دفاعی صلاحیت ہے وگرنہ مودی و بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ 40سال کے بعد بھی شہید بھٹو ریاست و جمہور کا نجات بن کر زندہ ہے۔ بھٹو کو تختہ دار پر سر دینا ہو کہ عوام کی سرداری کا انعام یہی ٹھہرے لیکن آئین شکن ایوب، یحییٰ ، ضیاء و مشرف قانون سے بالا تر قرار پائیں۔ اب ہمیں سوچنا ہے کہ سیاسی قیادت کے مقدر میں کفر اور غداری کے فتوے ہی کیوں ہیں؟ جبکہ آمروں کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔
بھٹو کے نام سے خوفزدہ قوتیں یاد رکھیں کہ سقراط، مسیح، امام حسین اور منصور حلاج غاصبوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے باوجود تاریخ میںامر ہیں تو تاریخ ان کے پیروکار ذوالفقار علی بھٹو کو کیسے فراموش کرسکتی ہے۔ شروجہل والے جان تولے سکتے ہیں مگر فکر اور نظریہ کو ختم نہیں کر سکتے اوریہی فکر ہمیشہ جمہور کی آواز بنتی ہے کہ … "اُٹھے گاانا الحق کا نعرہ"
ـ"اُٹھے گا انا الحق کا نعرہ"
Apr 04, 2019