جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا

بیلم حسنین
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت گئے، آج بھی ان کا نام زندہ ہے ۔ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو ایک آمر کے حکم پر پھانسی دی گئی۔ جسے تاریخ میں کبھی انصاف پر مبنی فیصلہ تسلیم نہ کیا گیااور اسے ہمیشہ عدالتی قتل ہی سمجھا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی فیملی سے ہماری فیملی کی قربت پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام سے لے کر آج تک قائم ودائم ہے۔ اس دوران پارٹی میں کئی نشیب وفراز آئے مگر ہمارا تعلق مضبوط رہا۔ میری والدہ بیگم نادر خاکوانی کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ ان کے بعد میں نے اس تعلق کو خلوص اور وفاداری کے ساتھ نبھایا۔
ذوالفقار علی بھٹو بچپن سے ہی میری پسندیدہ شخصیت تھے۔ میں اس وقت آٹھ نو سال کی ہوں گی جب میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے گھر میں دیکھا۔ وہ میری والدہ کی دعوت پر بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹوکے ساتھ ہمارے گھر آئے تھے۔ میں بھٹو صاحب سے مل کر بہت خوش ہوئی۔ میری والدہ اکثر مجھے بھٹو صاحب کی خوبیوں اور کارناموں کے بارے میں بتاتی تھیں۔ میں ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کافی اور سگار پینے کے شوقین تھے ۔ میری والدہ پیپلز پارٹی کی بہت سر گرم رکن تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہمارے گھر میں ہی پروان چڑھی۔ بیگم نصرت بھٹو اکثر ہمارے گھر میں قیام کیا کرتی تھیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک ناقابل فراموش شخصیت تھے۔ یہ بھٹو کی شخصیت کا کرشمہ ہے یا ان کے خاندانی و سیاسی وارثوں کی سیاست کا کمال کہ آج بھی بھٹو کی یادیں تازہ کر کے ان کی جدائی پرآنکھیں نمناک اور ان کی وطن کے لیے قربانیوں پر سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو ہماری سیاسی تاریخ کا ایک اہم اورنمایاں باب ہیں۔ پاکستان کے لیے بھٹو کی خدمات ناقابل تسخیر ہیں جن کی بدولت شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔مگرمگر آج بھی ہر انسان سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا تقدیر کا لکھا ٹالا نہ جا سکتا تھا۔پاکستانی قوم آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کی عظمت، خدمات اور کار ناموں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
میں نے بھٹو جیسا شخص‘ سیاستدان اور محب وطن نہیں دیکھا۔ پاکستان میںاسلامک کانفرنس کا انعقاد، 1973ء کا متفقہ آئین اورپاکستان کو نیوکلئیر طاقت بنانے کے لیے اقدام ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے کارنامے ہیں۔نیو کلیئر پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہالینڈ سے پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر آئے تھے۔ 1976ء میں دنیا بھر کے ممالک نے جان لیا تھا کہ بھٹو کے عہد میں پاکستان نے یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی۔ اسی پیش رفت پر ہنری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا اگر وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ترک کر دیں تو وہ ناقابل یقین مدت تک پاکستان کے وزیراعظم رہ سکتے ہیں۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے دوٹوک الفاظ میں انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ملکی مفاد کا سودا نہیں کریں گے۔ ان کی دور اندیشی پر مبنی یہی ’’دفاعی بنیاد‘‘ آج خطے میں طاقت کے توازن اور امن کی ضمانت ہے۔
بھٹو ایک لبرل تھے مگر انہوں نے قومی امنگوں کے عین مطابق ایک متفقہ اسلامی جمہوری آئین منظور کروانے میں بھر پور کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو مستحکم اور اسے دنیا کے نقشے پر نمایاں کرنا اپنامقصد حیات سمجھتے تھے۔ وہ ایک دلیر ، نڈر اور بے باک لیڈر تھے۔ انہوں نے اپنے ا صولوں پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے اپنی جان قربان کرنے کو ترجیح دی۔ بھٹو نے قادیانیت کا مسئلہ حل کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ مسئلہ جس کے بارے میں علامہ اقبال بہت متفکر تھے اور بعدازاں اس مسئلے پر پاکستان میں تحریک بھی چلی تھی۔ حتیٰ کہ نوبت قادیانیوں کے بائیکاٹ تک جاپہنچی، اس پر بھٹو نے عوامی خواہشات کی ترجمانی کی۔ ملک میںشراب نوشی اور قمار بازی پر پابندی عائد کر دی گئی اور اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک کی پیروی کرتے ہوئے جمعتہ المبارک کو ہفتہ وار چھٹی کا قانون پارلیمنٹ سے منظور کروایا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بصیرت کا اندازہ ان کے دور اقتدار میں بین الاقوامی دنیا کے سامنے پاکستان کی اہمیت سے لگایا جاسکتا ہے جس کا ثبوت پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں 47 آزاد مسلمان ریاستوں کی شرکت تھی ۔ بھٹونے ان تمام مسلمان ممالک کے دورے کئے اور ان کے سربراہان کے ساتھ ذاتی دوستی بنائی ،جنہوں نے اعلانی کئے بغیران کواپنا لیڈر مانا ۔ ملازمتوں کی غرض سے مقیم پاکستانیوں کو بیرون ملک قانونی تحفظ دلوایا ۔ اس وقت 27 لاکھ کے قریب پاکستانی مختلف ممالک میں روز گار کمانے گئے۔
جب جیل میں ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کے بعد بے نظیر بھٹو رخصت ہوتے ہوئے زار و قطار رو رہی تھیں تو بھٹو نے بیٹی کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا گھبراؤ نہیں یہ مجھے ہاتھ نہیں لگاسکتے۔ مجھے ڈراکر معافی نامہ لکھوانا چاہتے ہیں۔اس اعتماد کی ایک جھلک ان کی اپنی کتاب "اگر مجھے قتل کردیاگیا"میں بھی ملتی ہے اس کی چند سطریں ملاحظہ ہوں۔ مسٹربھٹو اپنی اس کتاب میں رقم طراز ہیں "میں ایک قوم بنانے کے لیے پیداہواتھا عوام کی خدمت کے لیے پیدا ہواتھا میں موت کی کوٹھڑی میں سسک کر دم توڑنے کے لیے پیدانہیں ہوا اور نہ کسی چالاک انسان کی دشمنی کانشانہ بن کر پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے لیے پیدا ہواہوں۔" میرے نزدیک ذوالفقار علی بھٹو ایک نظریے کا نام ہے۔

ای پیپر دی نیشن