خالقِ کون و مکان اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وبا ’’کورونا وائرس‘‘ نے کرۂ ارض کے تمام ممالک کو بلاتخصیص اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دنیا بھر کی طاقتور سے طاقتور اقتصادی ، سائنسی اور نیوکلیائی شعبوں میں اپنا لوہا منوانے والی مملکتوں سمیت نہ صرف پاکستان ایسے پسماندہ اور اپنی آبادی کی بڑی اکثریت غربت و عسرت سے نکالنے کی جان توڑ کوشش کرنے والے ممالک کے علاوہ انتہائی کسمپرسی اور محرومیوں کا شکار عوام سے عبارت ممالک بھی ’’کوروناوائرس‘‘ کے عذاب کا سامنا کر رہے ہیں اور ہر ملک کے اربابِ اقتدار اپنی اپنی قوم کو اس خوفناک وبا سے بچانے کیلئے ایسے تمام اقدامات اٹھا رہے ہیں جو ان کے بس میں ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس وبا کی زد میں دنیا بھر کے اقتدار کے ایوانوں کے مکینوں سمیت عام گھروں اور جھونپڑیوں میں رہنے والے بھی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر ملک کے اربابِ اقتدار کی طرف سے اپنے ملک کے عوام کو اس آفت سے بچانے کیلئے نہ صرف دن رات غور و فکر کیا جا رہا ہے بلکہ ایکے نتیجے میں اپنے اپنے شہ دماغوں کے مشوروں سے احتیاطی تدابیر بھی اختیار کر کے عوام کو ان پر عمل کرنے کی ہدایات کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔
اس خوفناک وبا پاکستان میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کے عوام میں دہشت ہی نہیں پھیلائی بلکہ اس کے حملوں کی زد میں ارضِ پاکستان کے سینکڑوں مرد و زن آ چکے ہیں اور ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ خدا کرے کہ اس وبا کی ہولناک تباہیوں اور خون افشانیوں کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ مگر جہاں تک کورونا وائرس کے پاکستان میں در آنے پر پاکستان اور اس کے عوام کے مصائب و آلام اورزندگی اجیرن ہو جانے کا معاملہ ہے۔ اس حوالے سے ملک کے کروڑوں غریب اور محروم گھرانوں سمیت سفید پوش طبقے کو بھی ضروریات زندگی کی محرومیوں کی اتھاہ گہرائیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ بلاشبہ کروناوائرس سے قوم کو بچانے کیلئے موجودہ حکومتوں جن میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں شامل ہیں نے جن حکمت عملیوںکو اپنایا اس کے نتیجے میں ملک بھر کے عوام میں بلاتخصیص اتنا شعور ضرور پیدا ہوا ہے کہ قریباً قریباً ہر طبقہ کے مرد و زن اور بچوں ، بوڑھوں نے حکومت کی اعلان کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل شروع کر رکھا ہے اور اس حوالے سے یہ کہنا برمحل ہو گا کہ ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے۔ مقام شکر ہے کہ یہ بات ہر کس و ناکس کے دل میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ کرونا وائرس سے بچنے کیلئے ہاتھوں کا بار بار دھونا اور باہر نکلتے وقت منہ پر ’’ماسک‘‘ کا استعمال ان کیلئے ضروری ہے۔ جہاں تک وبا سے بچانے کیلئے عوام کو شہروں میں سرعام چلنے پھرنے سے روکنے کیلئے ’’لاک ڈائون‘‘ کا تعلق ہے تو اس حکومتی اقدام پر بہت حد تک عمل درآمد کیا جا رہا ہے مگر ایسے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان ایسے ملک کے عوام میں خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کرنے والے چالیس فیصد کے لگ بھگ لوگوں میں روح اور جسم کا رشتہ بحال رکھنے میں شدید اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ کروڑوں سفید پوش گھرانے بھی اسی قطار میں کھڑے ہوئے جنہیں ضروریات زندگی کی گرانی اور عدم دستیابی کا سامنا ہے۔
ایسے معروضی حالات میں اگرچہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے انتہائی غریب افراد کیلئے 150 ارب روپے اور لاک ڈائون کی صورت سے نمٹنے کیلئے ہر خاندان کو چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ دینے کے پروگرام کا اعلان کیا گیا پھر گھروں میں کھانا پہنچانے کیلئے انہوں نے ’’ٹائیگر فورس‘‘ بنانے کا مژدہ بھی سنایا۔ انہوں نے گڈز ٹرانسپورٹ کی آمدورفت بحال کرنے کا اعلان کر دیا اور انتظامیہ کو ہدایت بھی دی کہ ملک میں کسی چیز کی قلت نہیں ہونی چاہئے۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ جہاں تک ملک کے چیف ایگزیکٹو عمران خان کی طرف سے ’’کورونا وائرس‘‘ کے حوالے سے اپنی خواہشات سے عبارت عوام کو پریشانیوں سے نجات دلانے کی خاطر خوش کن اعلانات اور انہیں وسائل روزگار کے معطل ہونے پر گھروں میں کھانا پہنچانے کا تعلق ہے اگرچہ ایسے اعلانات یقینا وقت کی ضرورت اور غریب طبقو کی ڈھارس ضرور ہیں مگر یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اعلانات اور ان کے درپردہ نیک خواہشات کے بر آنے کی امید اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک حکومت کے زیراہتمام غربت کے مارے لوگوں سمیت سفید پوش طبقے کے محروم لوگوں کے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کا کوئی مربوط پروگرام نہ ہو۔ یہ کام ابتدائی طورپر ابتدائی سطح پر عوام میں پکڑنے والی سیاسی جماعتوں کی شاخوں‘ یونین کمیٹیوں ‘ کونسلوں‘ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے معروف افراد اور ان سے مشوروں سے استفادہ کرنے سے ممکن تھا۔ جن کروڑوں بھوکے ننکے ضرورت مند عوام کیلئے ٹائیگر فورس بنا کر کھانا گھروں میں پہنچانے کا اعلان ہوا ہے‘ اس فورس کی تیاری میں یقینا ہفتے نہیں مہینے درکار ہیں جبکہ ضرورت مند کروڑوں خاندانوں کی بھوک مٹانے کا فوری بندوبست کیا ہوگا؟
یہ کام حکومت کو پولیس ایسے محکموں سے بھی نہیں بلکہ اپنے دیگر سماجی بہبود اور عوامی رابطوں کے اداروں سے لینا ہوگا۔ جاں بلب محروم طبقوں کیلئے طویل المدت نہیں‘ فوری علاج کی ضرورت ہے۔