امت مسلمہ میں ویسے بہت سے لیڈر پیدا ہوئے مگر میرے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنی مثال آپ تھے جن کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی تھی۔ نہ صرف پاکستان بلکہ تمام مسلمان ملکوں کا درد میرے شہید قائد کے سینے میں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام عرب ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی تجاویز دی۔ 1974ء میں آپ کی پہلی فارن پالیسی کی کامیابی اس وقت عمل میں آئی جب آپ نے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں تمام مسلمان ممالک کو اکٹھا کیا اور متحد ہونے کا مشورہ دیا۔ عرب ممالک کو ان کی حیثیت کا وژن دیا اور بتایا کہ وہ دنیا کے امیر ترین ممالک ہیں۔ مغرب ان کے آگے جھک سکتا ہے۔ میرے شہید قائد نے خلیجی ریاستوں کو یکجا کیا جو آج متحدہ عرب امارات کے نام سے پہچانی جاتی ہے یہ سہرا ہمارے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے سر پر سجا ہے۔ بھٹو شہید کے خصوصی مراسم، سعودی عرب کے سربراہ شاہ فیصل، لیبیا کے صدر کرنل قذافی، فلسطین کے سربراہ یاسر عرفات اور یو اے ای کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کے ساتھ تھے۔ ان تمام شخصیات نے میرے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر پاکستان کو اتنا پیسہ دیا کہ نہ صرف ہماری معیشت مضبوط ہوئی بلکہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ 1974ء کی پہلی اسلامی کانفرنس کی کامیابی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دشمن بہت زیادہ ہوگئے مگر وہ ذہین اور دلیر انسان تھے اپنی جان کی کوئی پروا نہیں کی اور کامیابی فارن پالیسی کا عمل جاری و ساری رہا اس دوران شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خطہ کا جائزہ لیا، حالات کی نزاکت کو جاننا اور چین کا دورہ کیا چین کے صدر سے خصوصی مراسم پیدا کیے اور خطے میں امریکی اثر کو کم کرنے کی بات چیت شروع کردی۔ چین ہمارے خطے کا وہ ملک ہے جس کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے شہید قائد نے پہلی مرتبہ بیجنگ میں عوامی سوٹ زیب تن کیا جو آج پاکستان کے بڑی بڑی شخصیات پہنتی ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی کے ساتھ شملہ میں کامیاب مذاکرات کیے اور 90 ہزار قیدیوں کے علاوہ پاکستان کی وہ سرزمین جو بھارت کے ناجائز قبضہ میں تھی آزاد کروائی۔ یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی خارجہ پالیسی کا کامیاب ترین سفر تھا اور اس مذاکرات میں میری شہید قائد بی بی بے نظیر بھی شامل حال ہیں۔1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے یو این او میں پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کا بھانڈا پھوڑ دیا اور اپنے وفد کے ساتھ واک آئوٹ کیا۔ بہت سے ممالک نے آپ کی تعریف کی مگر مغرب نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکیاں دیں اور اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کھلی دھمکی دی اور کہا کہ آپ کو
مقام عبرت بنا دیں گے۔ مگرشہید ذوالفقار علی بھٹو بے باک لیڈر تھے اور پاکستان کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے وہ اپنی جان پر کھل کر کھیل گئے آج پوری دنیا اس عظیم لیڈر کی فارن پالیسی کی تعریف کر رہی ہے جبکہ ان کی شہادت کو تیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ میرے لیڈر کو پھانسی نہیں ہوئی وہ مر کر امر ہوگیا آج تک پاکستان کو کوئی ایسا لیڈر نہیں ملا جس کی خارجہ پالیسی قابل تعریف ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بے شمار خارجہ امورمیں مسئلہ کشمیر بھی سرفہرست رہا جو شملہ معاہدہ بھی شامل ہیں آپ نے کشمیر کا متنازعہ علاقہ کا حل بھارتی وزیراعظم کو دیا تھا جس پر بھارت نے عمل نہیں کیا۔ فرانس سے بغیر معاہدے کے ایٹمی آلات حاصل کرنا بھی آپ کی خارجہ پالیسی کا حصہ تھے جو سنہری الفاظ میں لکھے جائیں گے۔ میرے قائد نے بار بار امریکہ کے دورہ نہیں کیے اور امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کی کوئی حیثیت ہے۔ افسوس ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والوں نے کچھ نہیں سوچا۔ 4اپریل ہمارے لئے دکھ سے بھرا دن ہوتا ہے میں بھی اپنی والدہ کے ساتھ گھر میں نظربند تھی ۔ ادویات تک اندر نہیں آنے دی جاتی تھیں مگر ہم اپنے شہید قائد کے غم میں ڈوبے ہوئے تھے اور آج تک سوگوار ہیں۔