’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں‘‘

جینے کے لئے مرنا یہ کیسی سعادت ہے مرنے کیلئے جینا یہ کیسی حماقت ہے۔ روز ازل سے انسان ابدی زندگی کا خواہاں ہے مگر اس کے حصول کی راہ کا تعین کرنا اس کیلئے مشکل ہے اکثریت سمجھتی رہی ہے کہ جاہ و جلال و رتبہ اور دولت و ثروت شاید پائیداری عطا کر سکتے ہیں مگر تاریخ نے ہمیشہ اسے سراب ثابت کیا۔ انسانی تاریخ میں بہت کم کردار ہیں جنھوں نے موت کو خود پر فتح مند نہ ہونے دیا بلکہ موت کو شکست فاش دے کر امر ہو گئے۔ انسان کی سب سے قیمتی شے جو اسے ملتی ہے اور ایک ہی بار ملتی ہے وہ اس کی زندگی ہے اور اس کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اس کو اس طرح جیا جائے کہ اس میں خوف و بزدلی کی ندامت موجود نہ ہو پس انسان زندہ رہے تو ایسے کہ بوقت نزاع وہ فخر سے کہہ سکے کہ میری تمام زندگی اور میری تمام تر صلاحتیں کائنات کے عظیم ترین مقصد کیلئے صرف ہوئی ہیں اور وہ مقصد نوعِ انسان کی آزادی اور نجات ہے۔اس عظیم مقصد کے تحت زندگی گزارنے والے افراد جہاں افکار میں ہم آہنگ ہوتے ہیں وہیں مشکلات اور آزمائشوںمیں بھی انتہائی حدتک مماثلت رکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایسا کرشماتی اور لافانی کردار ہے جس کی زندگی اعلیٰ ظرفی عظمت ہمدردی اور فراخدلی کا بہتا ہوا دریا تھی۔ بھٹو نے جابرانہ طاقتوں کے خلاف انتہائی دلیری سے مقابلہ کیا تاکہ سچائی ، انصاف اور مساوات کا عکاس ایک خوبصورت معاشرے قائم ہو سکے۔ بھٹو، ذوالفقار ِعلی بن کر آیا تاکہ محروم عوام کے پیروں میں پڑی ہوئی استحصال کی زنجیریں توڑ دے۔ انتہائی ایذارسانی نفرت انگیز انتقامی کارروائیوں اور موت کی کال کو ٹھری میں قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود بھٹو نے اپنی ناقابل شکست قو ت ارادی اور ناقابل تسخیر جذبے سے دشمن کے ناپاک عزائم کو پامال کر دیا۔ بھٹو کی ذات کروڑوں انسانوں کیلئے جو اس سر زمین کی اتھاہ تاریکیوں میں زندگی گذار رہے تھے ایک خدا داد نعمت تھی جیسے آسمان کا روشن ترین ستارہ آسمان کو منور کرتا ہے اُسی طرح وہ محروم عوام کی اندھیری زندگی میں اُمید حوصلے روشن مستقبل خوشحال زندگی اور مسکراہٹوں کا ایک روشن مینارہ تھا۔ عوام کے لئے بھٹو کے انمول کارناموں نے اسے امر بنا دیا ہے۔ لہٰذا بھٹو کی مسابقت کسی بھی سیاسی رہنما سے ناممکن ہے۔ بھٹو کے کردار کو سمجھنے کیلئے ہمیں تاریخ کے اعلیٰ اور روشن کرداروں سے رہنمائی لینا ہو گی جنھوں نے مصائب وآلام کا مقابلہ جرات و بہادری کے ساتھ کیا۔ قدیم انسانی تاریخ میں سقراط کا کردار ہو یا مکتب ِعشق کامنصور ہو یا راہ ِفقرکا بلھے شاہ ہو، انھیں ہستیوں کا کردار ہمیں بھٹو کو سمجھنے میں معاون ہو سکتا ہے۔ عوام کا بھٹو قائد ِعوام بن کر عوام کی خدمت میں مصروف ہوگیا۔ مساوات ، آزادی محروم طبقات کے حقوق کی جنگ میں عوام بھٹو کے سنگ تھے۔ بھٹو کہتے تھے ’’پاکستان کے عوام مجھے اپنی امنگوں کے ساتھ یاد رکھیں گے میں نے انہیں جواں سال قیادت فراہم کی پاکستان کی خواتین مجھے ہمیشہ خلوص دل سے یاد رکھیں گی کہ میں نے انھیں آزادی دینے کی کوشش کی۔ کسان مجھے جوش و جذبہ سے یاد رکھیں گے کہ میں نے جاگیرداری کی زنجیریں توڑ دیں محنت کش طبقے مجھے محبت سے یاد رکھیں گے کہ میں نے انھیں قومیائی گئی صنعتوں کا مالک بنایا۔ دانشور میری قدر کریں گے کہ میں نے خود کو ٹیکنالوجی اور جدیدیت سے مخلصانہ طور پر وابستہ رکھا۔ اقلیتیں ہمیشہ مجھے یاد رکھیں گی کہ میں نے ان کے ساتھ سچا سلوک کیا۔ وہ بے نام مجھے یاد رکھیں گے کہ میں نے انھیں زمین اور گھر دے کر شناخت دی اور بے چہرہ مجھے اس لیے یاد رکھیں گے کہ میں نے کچی آبادیوں میں انہیں مالکانہ حقوق دے کر پہچان دی۔ میں نے طبقاتی منافرت نہیں پھیلائی ہاں البتہ مظلوم عوام کا علم یقینا بلند رکھا ہے اور ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد کی ہے اور میں اُس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا جب تک یہ مقدس مقصد حاصل نہیں کرلیتا۔اگر میری زندگی میں ایسا نہ ہو سکا تو مرتے وقت اپنے بچوں سے وعدہ لوں گا کہ اس مقصد کی تکمیل کریں۔‘‘اب کٹہرا بھٹو کے انتظار میں تھا وہی یکتا کٹہراجس سے ہوتے ہوئے سقراط، منصور اور دوسرے باغی سولی تک پہنچے، کیونکہ ا زل سے خالقِ یکتا کی مخلوق کو یکتائی کی لڑی میںپرونے والوں کا یہی مقدر ٹھہرا ہے۔ بغداد کے بازاروں سے منصور کو زنجیروں میں جکڑ کر لایا گیا اور منکرومجرم گردان کر سولی پر چڑھانے کا فیصلہ ہوا تو منصور شاداں و فرحان گنگناتا رہا کسی نے مسرور ہونے کی وجہ پوچھی تو جواب دیا’’ اس سے زیادہ مسرت کا وقت اور کون ہو سکتا ہے جب میں اپنی منزل پر پہنچ رہا ہوں اور محبوب کے سامنے جا رہا ہوں میرے رب میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے مجھے ثابت قدم رکھا واقعی یکتا کی دوستی بھی یکتا کر دیتی ہے‘‘ اور پھر منصور نے اپنا لہو اپنے چہرے پر مل لیا کہ سب سرخروئی کا اچھی طرح مشاہدہ کر لیں کیونکہ خون جوانمردوںکا اُبٹن ہوتا ہے۔ بلھے شاہ نے ایسے ہی کٹہرے میں کھڑے ہو کر جینے کے لئے مرنے کی سعادت کا اظہار کچھ یوں کیا تھا کہ …؎
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
بھٹو کا دشمن چاہتا تھا کہ بھٹو اُس سے رحم کی اپیل کرے اُس کے آگے زندگی کی فریاد کرے گڑگڑائے معافی مانگے تاکہ اُس کی انا کی تسکین ہو لیکن بھٹو نے اپنے اسلوب میں بات کرنے کے بعد پھانسی قبول کرلی۔
3اور 4اپریل 1979کی درمیانی شب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا منصوبہ بنایا گیا مگر بھٹو نے اعلان کر دیا کہ …؎
بلھے شاہ اساں مرناں ناہیں
گور پیا کوئی ہور

ای پیپر دی نیشن