کہتے ہیں کہ اُس دن ذوالفقار علی بھٹو کو سخت بخار تھا ، جس دن وہ 52ماڈل کی مشہو ر ویلز جیپ چلانے والے اپنے ’’ٹیلنٹڈ کزن‘‘ اور سندھ کے ’’کٹ مست جاگیردار ‘‘ ممتاز بھٹو کے ہمراہ شہداد کوٹ سے ’’لاڑ کانہ ‘‘ آرہے تھے ۔اس دن علاقے کے مشہور پیر حاکم شاہ کی درگاہ کے فقیروں نے انہیں راستے میں روک کر کہا ’’سائیں ! ہمارے مے خانے پر چلیں اور چائے پی کر پھر جائیں‘‘ممتاز علی بھٹو نے تو درگاہ کے غریب فقیروں کو اپنے مخصوص لہجے میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’بھٹو صاحب ‘‘ کی طبیعت صحیح نہیں ، مگر ذوالفقار علی بھٹو کو میلے کپڑے والے ملنگوں کا دل توڑنا مناسب محسوس نہیں ہوا اور وہ اس مقام پر بیٹھ گئے ، جہاں موالی فقیر اپنے مخصوص کیف کی مشق میں مصروف تھے ۔ درگاہ کے خدمت گاروں نے سوکھی لکڑیاں جلا کر چولہے پر جست کی کیتلی رکھی اور جب تک چائے تیار ہوئی تب تک کسی نے کچھ نہیں کہا ، وہ سب چپ تھے ۔ ان کو معلوم تھا کہ بھٹوصاحب کی طبیعت ناساز ہے اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ان سے کچھ دینے کا کوئی وعدہ نہیں کیا ۔ وہ جانتے تھے کہ ملنگ لینے والے نہیں ، بلکہ دینے والے ہوتے ہیں ۔ ملنگ قسم کے لوگوں نے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے گلے میں روایتی فلکوں کی مالا ڈالی اور وہ مالا پہنے بھٹو صاحب خامو ش بیٹھے رہے ۔ پھر فقیروں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے ان کے سستے اور میلے پیالوں میں پی کر المرتضیٰ روانہ ہوئے ۔ شیروانی کالر والی کاٹن کی سفید قمیض پر منکوں کی مالا والی بھٹو کی وہ تصویر انٹرنیٹ کی دنیا پر اب بھی موجود ہے ، حالانکہ نہ اب وہ پیپلزپارٹی موجود ہے جس سے پورے ملک کے ملنگ نہ معلوم کیوں محبت کرتے تھے اور نہ اب سندھ کے ٹوٹے پھوٹے راستوں پر وپ ویلز جیپ نظر آتی ہیں جن کے سیلف اکثر خراب ہو جایا کرتے تھے اور ڈرائیور ان کابانٹ کھولے بغیر آگے سے ہینڈل گھما کر انہیں سٹارٹ کیا کرتے تھے ۔ اب نہ وہ عوامی سیاست ہے اور نہ غیر سیاسی محبت ، مگر درویشوں کی درگاہوں کے سائے میں مٹی کے وہ مے خانے اب بھی موجود ہیں ، جہاں لمبے بالوں والے ملنگ تصوف کا عجیب فلسفہ عوامی انداز میں بیان کرتے ہیں اور جب کوئی بھولا بھٹکا بابو ٹائپ جرنلسٹ ’’بیٹری ‘‘ کیلئے ان کے آستانے پر آتا ہے تو جست کی کیتلی میں گڑ والی چائے سے ان کی تواضع کرتے ہیں اور ملکی حالات پر فلسفیانہ انداز سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’پابا سائیں ‘‘ بھٹو صاحب ہمارے دلوں میں اب بھی زندہ ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت پر جہاں جذبات کا عنصر غائب تھا وہاں ان کی شخصیت میں خود داری اور عوام دوستی کو ٹ کوٹ کر بھر ی ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ آج 40برس ان کی شہادت کو بیت گئے لیکن عوام کے دلوں میں ان کی محبت اسی طرح موجود ہے ۔ پاکستان کی تاریخ کے اس باب کا مطالعہ کریں جس میں قائد اعظم کی شہادت کا ذکر ہے ۔4۔اپریل 1979ء کو ایک ایسے انسان کو شہید کردیا گیا جو اپنے اعلیٰ نصب العین ’’اپنے وطن ‘‘ اپنے نظریہ اور انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل تھے۔ قائد اعظم نے زندان کی اذیتوں کو برداشت کیا ، مگر انہوں نے ظالموں اور جابروں سے سمجھوتہ نہیں کیا ، کیونکہ و ہ تاریخ کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے غیر منصفوں اور جابر غاصبوں کے ہاتھوں شہادت کو ترجیح دی ۔ وہ شہادت کے رتبے سے خوب آشنا تھے ، اور زندگی اور موت کی حقیقت سے بھی آگاہ تھے ۔ عدالتوں کا اعتبار عدالتوں کا اختیار ، ملطق نہیں ہوتا ۔ ان کی بنیاد اس مینڈیٹ پر ہوتی ہے جو دستور انہیں فراہم کرتا ہے۔ ان فیصلوں کا احترام اس بات پر منحصر ہے کہ انہوں نے کس قانون اور دستور ری روایات کو اختیار کیا۔وہ اتنا ہی اختیار رکھتی ہیں جتنا دستور نے ان کیلئے متعین کیا ہے ۔ شہید بھٹو نے جس اعلیٰ نصب العین اصولی سیاست اور عوام دوست نظریہ اور انسانیت کی خیرو فلاح کے نظریے پر قائم رہتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے آنے والی نسلوں کیلئے شہادت کے اعلیٰ مقاصد سے روشناس کرادیا ہے ۔وہ قوم کیلئے مشعل راہ ثابت ہوتی رہے گی ۔ اُن کی سیاست کا عطاکردہ سیاسی شعور اور ظلمت کے اندھیروں سے ٹکرانے کا حوصلہ پوری قوم کیلئے ناقابل فراموش عطائے شہید باباہے ۔ غیر مشروط جمہوریت اور عوام کی شدید محبت میں مبتلا قائد عوام کی عوامی جدوجہد کا انقلابی فلسفہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک انہتائی پر اسرار موڑ ہے ۔ ان کی عوام سے پر جوش محبت اور سحر انگیز قیادت کا عوام نے اِس والہانہ انداز سے استقبال کیا ، جیسے وہ برسوںعاریت سے ناسازگار موسموں کی سختیوں سے تھپیڑے ہنستے ہوئے اپنے اِس محبوب و کرشماتی لیڈر کا ہی انتظار کررہے تھے ۔ قائد عوام بھٹو کے سیاسی سفر کا باقاعدہ آغاز 1957ء صدر سکندر مرزا کے زمانے میں شروع ہوا جب انہیں پہلی دفعہ بیرون ملک جانے والے وفد میں شامل کیا گیا ۔ وہ اِس وفد کے سب سے کم عمر ممبر تھے ۔ لیکن انہوں نے وہاں انتہائی مدبرانہ اور متاثر کن تقریر کی جس سے تمام وفود کے اراکین بہت متاثر ہوئے ۔ا نہیں پہلی دفعہ وزارت صدر ایوب خان کے دور میں ملی ۔ جب انہیں وزیر تجارت بنایا گیا وہ ایوب کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر تھے ۔ اس کے بعد انہیں وزیر معدنیا ت وقدرتی وسائل ، پھر ایندھن بجلی ’’پانی ‘‘ اور امور کشمیر کی وزارت دی گئی ۔ ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ایوب خان نے انہیں وزیر خارجہ بنایا ، جہاں انہوں نے ملک کیلئے بے پناہ و بے مثال خدمات انجام دیں ۔ پاک چین دوستی کے حقیقی معمار بھٹو صاحب ہی ہیں ۔ انہوں نے چین اور اِ س کی کمیونسٹ پارٹی سے پاکستان کیلئے خصوصی تعلقات استوار کرائے جس کے نتیجے میں آج بھی کہاجارہا ہے جس کے نتیجے میں آ ج بھی کہا جارہا ہے کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے بھی بلند ہے ۔ انہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کی ایک راہ متعین کی ۔ 1965ء کی جنگ میں تاشقند میں روس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کیلئے مذاکرات کی میزبانی کی ۔ پاکستانی وفد میں صدر ایوب خان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو ، وزیر خارجہ کی حیثیت سے تاشقند گئے تھے ، جبکہ بھارتی وفد کی سربراہی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے کی ۔ مذاکرات کے بعد جب معاہدہ تاشقند پر دستخط کا وقت آیا تو بھٹو کو اِ س کے نکات پر شدید اعتراضات تھے جس پر انہوں نے نہ صرف دستخط کی تقریب میں شرکت سے انکار کیا بلکہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اُسی وقت استعفیٰ دے دیا ۔ اُس کا موقف اصولی تھا کہ ہم جنگ جیتے ہیں پھر ہم ہارے ہوئوں کی طرح معاہدہ کریں ؟ وہ جس پر ایئرپورٹ پر اترے تو انہیں توقعات سے کہیں بڑھ کر عوامی پذیرائی ملی ۔ اِ س عوامی پذیرائی اور عوام کی محبت نے انہیں مجبور کرد یا کہ وہ سامراجی گماشتوں کے چنگل سے عوام کو آزاد کرائیں اور ملک کو تعمیر وترقی اور کامیابیوں کے سفر پر گامزن کردیں ۔
ان حالات میں بھٹو نے ملک و قوم کو مایوسی کے گہرے گڑھے میں گرنے سے بچانے کیلئے نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا اور اِ س کے قیام کیلئے 29نومبر 1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر نئی پارٹی کے قیام کیلئے 2روزہ اجلاس منعقد ہوا ۔ جس میں تقریباً 400افراد نے شرکت کی ۔ جس کی صدارت بھٹو نے کی ۔ پہلے روز کے اجلاس میں مختلف طبقات کی نمائندہ قیادت اور سرگرم رہنمائوں نے اپنے خیالات کا اظہا رکیا ۔ پیپلز پارٹی کا قیام 30نومبر1967ء کو منعقد ہونے والے تاسیسی اجلاس کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا ۔ بھٹو نے سیاست کو محلات سے نکال کر اِ س کو عوامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی ۔ یہ روایت شکنی اِ ن کے قتل کا موجب بنی جس کے سہولت کار اس زمانے کے منصف تھے ۔ بھٹو وقت کے حکمرانوں کیلئے ’’نافرمان ‘‘،ثابت ہوئے تھے ۔ جس کی وجہ سے وقت کے آمر حکمرانوں نے اس عمل کی سزا موت تجویز کی تھی ۔ ایک جملے میں اگر کہا جائے تو بھٹو 1967ء میں عوامی سیاست میں آئے ۔10برس میں اُن کی عوامی سیاست کا تختہ اُلٹا دیا گیا اور اگلے 2برسوں میں یعنی 1979ء میں انہیں پھانسی دی گئی ۔ بھٹو نے سیاست میں آنے کے بعد بڑے بڑے کھلاڑی وبرج الٹ دیے ۔ مغربی پاکستان کی 80فیصد نشستیں جیت کر صدیوں سے حکومتوں میں چھائے ہوئے عفریت کے بتوں کو پاش پاش کردیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کا ایک نام ہے جنہوں نے ملک غریبوں اور عام آدمیوں کی قسمت ہی بدل دی ۔ انہوں نے غریبوں کچلے ہوئے انسانوں ، مزدوروں ، ہاریوں ، اور اِ س طرح کے طبقات کو معاشرے میں باعزت مقام دلانے اور سر اُٹھا کر جینے کا ڈھنگ سکھایا ۔ سب سے بڑ اکا م انہوں نے قادیوں کو غیر مسلم قرار دلایا ۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک میں کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کی یاد پاکستانی سماج کو آج بھی غم سے دوچار کرتی ہے۔ ان واقعات میں بنگلہ دیش ، بننے سے قبل دو مارش اور بعد کی اندوہناک آمریتیں ، بھٹو کا آمریت کے ہاتھوں عدالتی قتل ، اسلامی دنیا کی پہلی منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا سر عام قتل ، ان کے دو بھائیوں میر شاہ نواز اور میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل ، بسمل اور نیم بسمل جمہوری ادوار ، پاکستان کو محتاج اور دست نگر سماج میں تبدیل ہونے جیسے واقعات اس پورے عرصے کے سب سے اہم اور سب سے زیادہ متاثر کرنے والے واقعات ہیں ۔ 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا ۔ کچھ عرصہ بعد رہا ہوئے ، مگر فوراً ہی ایک مقدمہ قتل میں دوبارہ حراست میں لیے گئے ۔ آپ کو سزائے موت سنائی گئی۔ جسے بعد میں سپریم کورٹ نے اکثریتی رائے یعنی 3-4کے اختلافی فیصلے کی صورت میں برقرار رکھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بہن نے جنر ل ضیا ء الحق سے رحم کی اپیل کی جسے مسترد کردیا گیا ۔ 4۔اپریل 1979ء کو یہ عہد ساز سیاست دان زندگی کی بازی ہار گیااور راولپنڈی کی سنٹرل جیل میں آپ کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ جیل اپنی بد نصیبی پر آج بھی نوحہ گھر ہے ۔ فیض احمد فیض نے بھٹو کی پھانسی کے متعلق کہا تھا !
’’دیا تھا صبح مسرت اک چراغ ہمیں
اسی کو تم نے سرشام کھودیا لوگو‘‘