دنیا ایک ایسے امتحان سے گزر رہی ہے جس کا اسے پہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک سب ہی کورونا کی وبا سے پریشان ہیں۔ پاکستان بھی ایک ایساملک ہے جسے اس آفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بدقسمتی سے کورونا سے متعلق وزیر اعظم عمران خان کا قوم سے تیسرا خطاب بھی غیر متاثر کن رہا ہے۔اس موقع پرپاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے 12سو ارب روپے کے ریلیف پیکج کے اعلان کے باوجود کورونا فنڈ کا قیام کسی مذاق سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔12سو ارب روپے کی خطیر رقم کے پیکج کے اعلان کے بعد کسی بھی قسم کا چندہ جمع کرنے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ عوام سے مخیر حضرات سے یا سمندر پار پاکستانیوں سے اس سلسلے میں چندہ مانگنا ایسے سوالات کو جنم دے رہا ہے جس کا جواب ملنا ضروری ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو ایک جانب خوشخبری سنا رہی ہیں کہ اس نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکج عوام کے لیے تیار کیا ہے اور دوسری جانب عوام سے کرونا فنڈ میں پیسے مانگ رہی ہیں قول و فعل کا یہ تضاد کس بات کی جانب اشارہ کر رہا ہے؟ ہماری تاریخ شاہد ہے جب بھی حکمرانوں نے کسی بھی قومی مسئلے پر عوام سے مدد مانگی اور ان سے فنڈز کی اپیل کی تو عوام نے دل کھول کر اس مہم میں حصہ لیا لیکن آج تک کوئی ایک بھی مہم اس حوالے سے اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچی بلکہ قوم کی جمع پونجی ہمیشہ چوک پر ہی لٹتی رہی اور لوٹنے والے اس قوم کے حکمران ہی ہوتے تھے۔ہماری تاریخ قرض اتارو ملک سنوارو، سیلاب فنڈ،زلزلہ متاثرین فنڈ، ڈیم فنڈ سمیت دیگر تمام اس طرح کے فنڈز میں آج تک عوام نے جس طر ح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس کے نتیجے میں انہیں کیا ملا؟ آج تک عوام کو یہ پتہ نہی چل سکا کہ ان فنڈز کے ذریعے جمع ہونے والی خطیر رقم کہاں خرچ ہوئی؟ اس رقم کو کس نے کیسے استعمال کیا؟ماضی کے تمام فنڈز صرف کرپشن اور جعلسازی کے علاوہ کہیں بھی استعمال نہیں کیئے گئے۔ گذشتہ 30سالوں میں پاکستان میں ایسی کوئی بھی قیادت سامنے نہیں آئی ہے جسے عوام صادق و امین سمجھتے ہوئے اپنی جمع پونجی ان کے حوالے کریں اور اسکی منصفانہ تقسیم کیلئے ان پر بھروسہ کر سکیں۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے 12سو ارب روپے کے ریلیف پیکج کے اعلان کے باوجود عوام کے کسی بھی طبقے نے اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام الناس کی اکثریت یہ بخوبی جانتی ہے کہ یہ فنڈز جو مختص کیا گیا ہے وہ شاید مٹھی بھر لوگوں تک پہنچ بھی جائے تب بھی ملک کی غالب اکثریت اس سے محروم ہی رہے گی۔اس خطیر فنڈز سے اکثریت استفادہ حاصل نہیں کر سکے گی۔ ہمارے سامنے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مثال موجود ہے جس کے ذریعے بظاہر ایک طویل مدت سے غریبوں کی مدد کی بات کی جارہی ہے کیا اس سے غربت ختم ہوگئی ہے؟ ہمیں جواب نفی میں ملتا ہے بلکہ اسکے باوجود ملک میں غربت بڑھی ہے۔ موجودہ حکومت نے جب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آڈٹ کیا تو پتہ چلا کہ ملک میں تقریباًًآٹھ لاکھ افراد جو کلرک سے لے کر سیکریٹری تک کی پوسٹ پر سر کاری ملازمت کر رہے ہیں وہ بھی اس اسکیم سے استفادہ حاصل کرتے رہے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کے نام پر لوٹ مار کا ایک بازار گرم کیئے رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے اعلان کیا ہے کہ دو سو ارب روپے احساس پروگرام کے تحت کیش تقسیم کریں گے۔ ہمیں ان کی نیت پر شک نہیں ہے لیکن ہمارے عوام کا جو ماضی کا تجربہ ہے ا سکی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس خطیر رقم کی بندر بانٹ بھی بالکل ویسے ہی ہوگی جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ہوتی آئی ہے۔تین یا چار ہزار روپے دے دینے سے نہ ہی کسی کے گھر کا راشن پورا ہوتا ہے اور نہ کسی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ ایسے منصوبوں میں اربوں روپے ضائع ہوتے ہیں اور معاشرے میں غربت کے خاتمے میںذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا اس پیکج میں ایک اور بہت بڑا نقص جو سامنے آیا ہے وہ ’’یوٹیلٹی اسٹورز‘‘کا ہے۔عمران خان صاحب نے 50ارب روپے کی خطیر رقم یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے سبسڈی دینے کے لیے مختص کی ہے۔ اس حوالے سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں یوٹیلٹی اسٹورز کی کل تعداد کتنی ہے جسکی مدد سے عوام کو سبسڈی کی سہولت فراہم کی جا سکتی ہے؟دوسرے نمبر پر ’’یوٹیلیٹی اسٹورز‘‘ کی چین خود ایک بہت بڑا کرپشن کا ذریعہ ہے، جس کے ذریعے ملنے والی ریلیف کا دس فیصد بھی اصل عوام تک نہیں پہنچتا۔ محتاط اندازے کے مطابق زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد پاکستانی عوام کی یوٹیلٹی اسٹور تک رسائی ہے۔ غریب عوام طویل قطاریں لگانے کے بعد جب اندر پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی چیزیں دستیاب نہیں اسٹاک ختم ہو چکا ہے۔پاکستان کے کسی بھی ایک یوٹیلٹی اسٹور کی مثال نہیں دی جا سکتی جہاں تمام اشیاء ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہوں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان اسٹورز پرجو اشیاء دستیاب بھی ہوتی ہیں وہ زیادہ تر معیاری نہیں ہوتی ہیں۔ لہذا 50ارب روپے اس سبسڈی کے ذریعے عوام کی مشکلات میں کسی بھی طرح کا افاقہ نہیں ہوگابلکہ یہ عمل بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔حکومت کو اگر واقعی عوام کو ریلیف دینا تھا تو براہ راست دیا جا سکتا تھا حکومت غریب طبقے کے بجلی اور گیس کے بلوں کو دو ماہ کے لیے معاف کردیتی اور اس رقم سے بجلی اور گیس تقسیم کار کمپنیوں کو حکومت کی جانب سے ادائیگی کر دی جاتی۔ اس کے ذریعے عوام کو بنیادی ریلیف مل جاتا۔ ایسے اسکول جو غریب علاقوں میں ہوں یا جن میں غریب عوام کے بچے پڑھتے ہوں ان کی تین ماہ کی فیس حکومت ادا کردیتی۔ حکومت راشن کی شکل میں یا روز مرہ کی ضروریات کے ضمن میں اگر غریب عوام کی مدد واقعی کرنا چاہتی ہے تو احساس پروگرام ہو یا بے نظیر انکم سپورٹ پرگرام کے فنڈز ملک میں فلاح و بہبود کا کام شفاف طریقے سے کرنے والے مختلف سماجی اور مذہبی اداروں کے ذریعے عوام تک پہنچا سکتی ہے۔وہ ادارے جن کی نیک نامی مسلم ہو اور ان کی کارکردگی پر کسی قسم کا سوال نہ اٹھایا جاسکے مثلاً سیلانی ویلفیئر، ایدھی فائونڈیشن، اخوت فائونڈیشن، الخدمت، خدمت خلق فائونڈیشن، خواجہ غریب نواز ٹرسٹ, المصطفی ویلفیئر اور ایسے ہی دیگر ادارے جن پر لوگوں کا اعتماد ہے اگر یہ رقم ان اداروں کو دے دی جائے اور ان سے کہا جائے کہ اسے مستحق لوگوں میں تقسیم کرنے کے بعد اس کا ڈیٹا حکومت کو فراہم کیا جائے جس کوحکومت چیک کر کے اپنی تسلی بھی کر لے تو مجھے یقین ہے کہ اس طریقے سے کم از کم نوے فیصد تک امداد حقیقی مستحق لوگوں تک پہنچ جائے گی۔ملک میں لاک ڈائون کودو ہفتے ہونے والے ہیں اور مز یددو ہفتوں کے لیے لاک ڈائون کرنے کا حکمنامہ جاری کیا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود حکومت ابھی تک عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی تیاریاں اور اسکی حکمت عملی ہی مرتب کر رہی ہے حکومت کی جانب سے عوام تک ابھی ایک دھیلہ نہیں پہنچا، جب تک یہ امداد تقسیم کے مر حلے تک پہنچے گی تو معلوم نہیں کتنے لوگ خود کشی کی حالت کو پہنچ چکے ہوں گے۔ملک کے چاروں صوبوں بشمول اسلام آباداور آزاد کشمیر میں عملاً لاک ڈائون ہو چکا ہے۔ ایک طرف تمام صوبائی حکومتیں لاک ڈائون کے اچھے اثرات کا اعتراف کررہی ہیں تو دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم قوم سے اپنے ہر خطاب میں اس بات کا اظہار سب سے پہلے کرتے ہیں کہ وہ لاک ڈائون کے حق میں نہیں ہیں اور لاک ڈائون مسئلے کا حل نہیں ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محترم عمران خان صاحب کسی اور ملک کے وزیر اعظم ہیں اور ہمارے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور ان کی حکومتیں ان کی حکومت کا حصہ نہیں ہیں جہاں عملاً لاک ڈائون ہے اور صوبائی حکومتیں ان کو تسلیم بھی کر رہی ہیں۔پورا پاکستان عملی طور پر لاک ڈائون ہوچکا ہے۔ ایسا لگتاہے وزیر اعظم صاحب نے خود کو چند ایسے وزیروں اور مشیروں کے درمیان لاک ڈائون کر لیا ہے جو انہیں مفید مشورے نہیں دے رہے ہیںاور انہیں تصویر کا صرف وہ رخ دکھارہے ہیں جس سے ان کی سوچ اور ساکھ دونوں متاثر ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم کے اقدامات زمینی حقائق کے منافی ہیں۔رمضان شروع ہونے سے ایک دن قبل عوام کی اکثریت بینکوں سے اربوں روپے صرف اس لیے نکال لیتی ہے کہ بینک ان کی زکواۃ کی کٹوتی نہ کرلے اور ایک دن کے بعد وہ رقم دوبارہ بینکوں میں واپس آجاتی ہے۔ اس کے پیچھے بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنی زکواۃ دینا نہیں چاہتے بلکہ لوگوں کا حکومت کے بینکاری نظام کے ذریعے اپنی زکواتہ ادا کرنے پر اعتماد نہیں ہے۔ آج وفاقی یا صوبائی کسی بھی حکومت پر لوگوں کا وہ اعتماد نہیں ہے کہ وہ اپنی محنت کی کمائی کورونا فنڈ میں دیں۔ اسکے بر عکس مختلف ادارے جن کی ساکھ اچھی ہے لوگ انہیں رقوم دے رہے ہیں یا ذاتی طور پر سڑکوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں تک راشن اور نقد رقم پہنچا رہے ہیں۔اس کا بین ثبوت یہ بھی ہے کہ اکثر علاقوں میں راشن اتنا وافر تقسیم کیا گیا ہے کہ وہ چند دکانوں پر فروخت کے لیے بھی پہنچ گیا ہے۔ ایسے کئی مناظر ہمارے الیکٹرانک اور شوشل میڈیا پر دکھائے جا رہے ہیں۔میری درخواست ہوگی کہ شہر میں فعال میڈیا کسی گائوں یا دیہات تک بھی جائے جہاں لوگ زندگی کی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں حکمراں یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایک ایک گھر تک راشن پہنچائیں گے ہمارا میڈیا دیہی علاقوں کی اصل صورتحال کو بھی سامنے لائے۔کورونا فنڈز کے لیے بار بار اپیل سے قوم کا مورال ڈائون ہو رہا ہے کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم نے خود ہی سب سے بڑا کشکول اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا ہے۔ ملک میں بھی عوام سے امدا د مانگی جارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ورلڈ بینک, ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی امدی اداروں سے بھی رجوع کرلیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان سے بھی رابطہ کررہے ہیں اور ہمارے ملکی قرضے معاف کرنے یا کم ازکم ری شیڈول کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس سے بہتر تو یہ ہوتا کہ ہمارے ملک میں ایسے سیکڑوں لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنے منصب اور اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غضب کرپشن کے ذریعے اربوں کھربوں روپے ملک کے لوٹے ہیں۔ مثال کے طور پر کے ایم سی کے سابق ڈی جی پارکس لیاقت قائم خانی اور اس جیسے100 لوگوں پر اگر اس وقت ہاتھ ڈال دیا جائے اور ان سے ریکور ہونے والی رقم کو فوری طور پر کورونا ریلیف فنڈز میں ڈال دیا جائے تو مملکت کو کسی سے بھی مانگنے کی قطعا ضرورت نہ پڑے۔اس ضمن میں خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد لی جاسکتی ہے جن کے پاس ایسے افسران اور سیاست دانوں کی فہرست ہمہ وقت تیار رہتی یے اور جو بوقت ضرورت اپنے مقاصد کیلئے استعمال بھی کی جاتی ہے۔ماہرین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں وزیراعظم کی جانب سے اعلان کردہ ٹائیگر فورس کا قیام بھی اس وقت ملک کے کشیدہ سیاسی ماحول میں قوم کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بنے گا اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج حکومت کیلئے مزید جگ ہنسائی کا باعث بنیں گے۔وزیراعظم کو چاہیئے کہ وہ جلد بازی میں بغیر غور وفکر کے کیئے گئے اپنے اس فیصلے پے سنجیدگی سے دوبارہ نظر ثانی کریں اور اس مشکل وقت میں تمام سیاسی قائدین اور قوم کو یکجا کرنے کی کوشش کریں۔
وزیر اعظم کے تین خطابات،نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات
Apr 04, 2020