انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی اہم واقعہ پیش آیا۔ جب بھی کوئی خاص بات ہوئی تو مورخین نے اپنے اپنے انداز میں اس صورتحال کو ایسے پیش کیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے یادگار رہا اور جب بھی اہل ذوق و شوق مطالعہ کرتے تو وہ اس ساری صورتِ حال کو ایک نئے انداز سے دیکھتے۔ دنیا بھر میں کرونا وائرس نے تباہی پھیلادی ہے، مگر سرِ دست میرا موضوع صرف اپنی ارضِ وطن ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس آ تو چکا ہے مگر جانا کب ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ تاہم ابھی تک کے جو واقعات ہوئے ہیں اگر اسے تاریخ میں محفوظ کرنا ہو تو ہمارے خیال میں مورخ کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ مثال کے طور پر مورخ لکھے گا کہ جب چین میں وائرس آ چکا تو 22 کروڑ کی اس آبادی میں کوئی ایسا صاحب وجدان نہیں تھا کہ جس نے ارباب اختیار سے رابطہ کر کے انہیں حالات کی سنگینی سے باخبر کیا ہو۔ ہماری وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں میں چند افراد بھی ایسے نہ تھے کہ جنہوںنے فیصلہ کن اتھارٹیز سے بروقت بات کرنے اور انہیں اس پر سنجیدگی سے سوچنے کا مشورہ دیا ہو۔ مثال کے طور پر کہ اگر یہ وبا ملک میں آ جاتی ہے تو اس کو نبٹنے کے لیے ہمارے پاس کتنی صلاحیت موجود ہے۔ کتنے ہسپتال ہیں، کتنے ڈاکٹرز اس کو ہینڈل کر سکتے ہیں، کیا لاجسٹکس درکار ہوں گے۔ اس وبا سے نبٹنے کے لیے کیا حفاظتی تدابیر ہوں گی؟ مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ 18 ماہ سے نکمے، نااہل اور سلیکٹڈ کہنے والوں پر صرف انحصار کیوں کیا گیا۔ کیا دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین محض 22 کروڑ شہپری کی بے بسی دیکھنے کا انتظار کرتے رہے؟ کیوں نہیں انہوں نے بروقت شور مچایا، کیوں نہیں انہوں نے بروقت انتظامات کرنے کے لیے فوری قیادت کو مجبور کیا؟ مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ اپوزیشن لیڈر برطانیہ سے ملک لوٹا تو اس کی کوریج، تشہیر اور ممکنہ حرکات اور عمل دکھانے کے لیے ہر طرح کے میڈیا نے کیا کردارادا کیا ۔ مورخ یہ تو ضرور لکھے گا کہ میڈیا والوں نے ایک مخصوص ’’شخصیت‘‘ کی رہائی کی خاطر کس طرح شور مچایا، ٹاک شوز کیے۔ سیاسی و سماجی شخصیات کے بیانات نشر کیے، اخبارات میں کالم لکھے، مگر کرونا وائرس کے لیے محض ’’نمائشی بیان‘‘ کے اور کچھ بھی نہ کہا ۔ مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ بڑے بڑے اہل علم اور نجوم کے ماہرین نے ایک گھر میں سات سیاروں کے اکٹھے ہو کر مشکل حالات پیدا کرنے کی بات تو ضرور کی مگر واضح انداز میں ایک وبائی مرض کے آنے یا پھیلنے اور تباہی مچانے کا ذکر کیوں نہ کر سکے! مورخ یہ بھی ضرور لکھے گا کہ ہر گلی، ہر محلے اور ہر قصبے میں بیٹھے پیر اور فقیر کہ جن کے آستانوں پر ’’شف شف‘‘ کر کے ہر بیماری کا علاج موجود ہوتا تھا آج وہ سب اپنے آستانوں کو بند کر کے محض فون پر دعائیں دینے تک محدود کیوں ہو گئے ہیں۔ بڑے بڑے گدی نشین جو اپنے ’’اصل‘‘ بزرگوں کا نام بیچ کر عالی شان زندگی گزار رہے ہیں وہ آج کہاں غائب ہیں؟کرونا کے آنے سے لے کر آج تک ہم تمام بتائے گئے روحانی علاج کو اکٹھا کریں تو معلوم ہو گا کہ شاید ہی کوئی نسخہ رہ گیا ہو تاہم بحیثیت مجموعی کسی ایک وظیفہ یا ’’علاج‘‘ پر اتفاق نہ ہو سکا۔مورخ آج کی تاریخ لکھتے یہ ضرور پوچھے گا کہ ایسے نازک حالات میں کدھر ہے میرا جسم اور کدھر ہے میری مرضی آج لبرلز نہ جانے کن گمنامیوں میں جا چھپے ہیں۔ جو سیکولرازم کو پروموٹ کرتے تھے وہ کیوں نہیں باہوں میں باہیں ڈال کر نظر آرہے۔ آج کہاں ہیں ان کی محافل اور مشاغل، کہاں ہے ان کا مختصر لباس اور کہاں ہے ان کی مرضی۔ عام حالات میں عدلیہ بارے کوئی بات کہی جائے تو توہین عدالت کا ڈر پریشان کیے رکھتا ہے مگر آج کا مورخ پاکستان کے چیف جسٹس کے ان ارشادات کو تاریخ کا حصہ ضرور بنائے گا کہ جنہوں نے کرونا کی آڑ میں دئیے گئے فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر یہاں تک کہا کہ ایسے خطرناک ملزموں کو چھوڑنے کا آرڈر کس قانون کے تحت دیا گیا ہے؟ سب سے بڑی عدالت میں یہاں تک کہا گیا کہ کرونا میں مبتلا شریف آدمیوں کو پولیس پکڑتی ہے جب کہ خطرناک ملزموں کو عزت سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ڈیفنس کراچی تک کی مثال دی گئی کہ وہ بھی ایسے جرائم پیشہ لوگوں سے محفوظ نہیں۔ اور تو اور یہاں تک کہا گیا کہ قانون سے تجاوز کیا گیا ہے ایسے ہی حالات میں مورخ شاید نواب شاہ کے ایک باشندے کی قسمت پر ناز کرے کہ ان کے صوبہ میں کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں۔ خوشی نصیبی کی دیوی ہمیشہ ہی ان پر مہربانی رہتی ہے۔ ایسے ہی حالات میں شاید مورخ اس ارسطو کو بھی نہ بھولے جوکہتا ہے کہ جسے شروع سے چندہ مانگنے کی عادت ہو وہ ہمیشہ ہی چندہ مانگتا رہتا ہے۔ مگر دوسری طرف ارسطو شاید کچھ ’’شریفوں‘‘ کے بارے میں یہ کہنا بھول گئے کہ جو چور ہوں وہ ہمیشہ چوری ہی کا سوچتے ہیں۔ قرض اُتارنا ہو یا ملک سنوارنا ، سڑکیں بنانا ہوںیا میٹرو، سیلاب ہوں یا وبائیں انہوں نے ان سب حالات میں ایسے طریقے ایجاد کر لینے ہیں جس سے ان کے مالی ’’درجات‘‘ اور بلند ہوں۔ آخر میں مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ ہم وبائوں کے خاتمے کے لیے آذانیں تو ضرور دیتے ہیں مگرنمازیں پھر بھی نہیں پڑھتے۔ مولانا حضرات فرماتے ہیں کہ نماز اور تبلیغ کے لیے ہمیں مت چھیڑو۔ اگر ہمارے ہاتھ بددعا کے لیے اُٹھ گئے تو بڑا غضب ہو گا۔ حیرانگی اس بات کی ہے کہ اُن کے ہاتھ وباء کے خاتمے کے لیے کیوں نہیں اُٹھتے۔ حالات ایسے ہیں کہ نمازِ جنازہ غریب کی الگ ہے اور امیر کی الگ۔ نہیں مان رہے تو جمعرات کی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے خبرنامے دیکھ لیں۔ وہاں لاء ا ور سیکیورٹی کے انتظامات والوں نے کیوں ہجوم کو اکٹھا ہونے دیا۔ کیوں لوگ ’’گٹے سے گٹا‘‘ ملا کر کھڑے تھے۔ کالم لکھتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہی تھا کہ ’’سائیں جی‘‘ کا فون آیا۔غصے اور اضطراب میں تھے۔ پوچھنے لگے کیا کر رہے ہو۔ عرض کی کالم لکھ رہا ہوں۔ کہنے لگے کہ میرا ایک پیغام ضرور لکھ دینا تاکہ تمہارے قارئین اور ان کے ذریعے عام آدمی کو معلوم ہو سکے کہ خدا ہم سے ناراض ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں شاید پھر بھی ہمیں معاف کر دے۔ مگر دنیا بھر میں اور باالخصوص پاکستان میں تحفظِ ناموسِ رسالت بارے ہمارے عمل اور کردار سے شدید خفا ہے۔ ہمارے اکابرین، ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتیں ناموسِ رسالت کے قانون پر لچک رکھتی ہے اور کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ امریکہ اور مغرب کے دبائو پر پھانسی کی سزا ختم کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ ناموسِ رسالت بارے کھل کر لکھ دو کہ گستاخ کو ہر صورت پھانسی دینا چاہئیے اور ہر پاکستانی کو اپنے نبی پاکؐ کے نام اور عزت کی خاطر اپنی جان تک دے دینا چاہئیے۔ یہود و نصاریٰ کے دو ہی ایجنڈے ہیں۔ اوّل ہمیں اللہ اور اس کی تعلیمات سے دور کرنا اور دوسرا ہمارے دلوں میں نبی پاکؐ کی محبت کم کرنا، حتیٰ کہ ختم ہی کر دینا، سائیں جی کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے اربابِ اختیار اکٹھے ہو کر عوامی سطح پر اس امر کا اظہار کریں کے ہم ایسا قانون بنا رہے ہیں اور نہ ہی اس طریقے کا کوئی قانون بننے دیں گے اور دوسرا ایک لحاظ سے تجدید عشق رسول ، تجدید ادب رسول اور تجدید وفاداری رسول کا عہد کر کے اللہ سے معافی مانگیں، قوم کو بھی یہی مشورہ دیں اور نیک نیتی سے اس مشن کو آگے بڑھائیں۔ رب تعالیٰ اپنا خصوصی کرم کریں گے! اور درج ذیل دو اشعار سنائے کہ شاید یہ موجودہ وقت کے لیے ہی لکھے گئے تھے:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستان پیدا
اور
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوحُ و قلم تیرے ہیں