پاک بحریہ ایک فعال ادارہ ہے جسے پاکستان کی بحری حدود کے دفاع کی عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ حال ہی میںپاک بحریہ نے جنگی کورویٹ پی این ایس یر موک کو اپنے بحری بیٹرے میں شامل کیا ہے۔2017ٗء میں مختلف اداروں کی جانب سے شرکت کی پیشکش کے بعد پاکستان نے دلندیزی جہاز ساز کمپنی ایم ایس ڈامین کو دو کورویٹ تیار کرنے کا ٹھیکہ دیا۔ پہلی کورویٹCorvetteیر موک ایم ایس ڈامین کے رومانیہ میں واقع جہاز ساز شپ یارڈ میں تیار کی گئی جہاں پاک بحریہ کی دوسری کورویٹ پی این ایس تبوک بھی تیار کی جا رہی جو انشاء اللہ اسی برس کے وسط میں پاک بحریہ کے حوالے کر دی جائے گی۔پی این ایس یرموک جدید ترین لڑا کا جہاز ہے جو الیکٹرانک جنگ۔ آبروزوں اور بحری جہازوں کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اسکے علاوہ اپنے دفاع کی خاطر اس میں جدید ترین ریڈار ،فضائی حملے سے بچائو کے لئے طیارہ کش توپیں اور ہتھیار نصب ہیں۔ یرموک بحری جنگ میں شمولیت کے لیے ایک لڑاکا ہیلی کوپٹر اور بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والا یواے ویUAVسے لیس ہے۔ علاوہ ازیں یر موک یہ دشمن کے خلاف سر عت سے حملہ کرنے کی خاطر دو تیزر فتار کشتیاں بھی ہیں اور20فٹ کے کنیٹز جو خصوصی عسکری مشن میں استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ پاک بحریہ کے جہازوں کے نام مغل شہنشاہوں یا غزوات اور اسلامی جنگوں کی یاد میں رکھے جاتے ہیں۔ پی این ایس یر موک کا نام636ء میں جنگ یرموک کی یاد تازہ رکھنے کی خاطر رکھاگیا۔
خلفائے راشدون کے دور حکومت میں یہ جنگ دریائے یر موک کے کنارے رومی اور اسلامی فوجوں کے مقابل ہوئی۔ اسلامی فوجیں جو20,000 فوجیوں پہ مشتمل تھیں کی قیادت حضرت خالدبن ولید ؒ کر رہے تھے۔ رومی فوج جو ڈیڑھ لاکھ فوجیوں پہ مشتمل تھی کی قیادت تھیوڈور ٹرائی تھیر ئیں کر رہے تھے۔ چھ دنوں کی گھمسان کی جنگ کے بعد اسلامی فوجیں فتح سے ہمکنار ہوئیں اور شام سے رومی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی یہ سب سے اہم فتح تھی۔
پاک بحریہ کی اتبداء 14اگست1947ء کو ہوئی جب پاکستان وجود میں آیا۔ پاک بحریہ نے 4 سلوپ ( چھوٹی جنگی کشتیاں) چار فلیٹ مائن سوئیر8 Fleel Mine Sweeperموٹر مائن سوئیر اور بندرگاہوں کے دفاع کی کشتیوں سے ابتداء کی۔17جنوری1948ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے پاک بحریہ کے یونٹس کا معائنہ کیا۔ دلاور نامی جنگی جہاز پہ قائد ؒ نے بحریہ کے افسر وجوان سے خطاب کیا اور اپنی ولولہ انگیز تقریر میں بحریہ کو اپنی ذمہ داری دلجمعی سے انجام دینے کی تلقین کی قائدؒ کی ہدایات پہ عمل کرتے ہوئے پاک بحریہ کے افسروجوان پاکستان کی بحری حدود کے دفاع کی ذمہ داری غیر متز لزل ایمان اور پیشہ ورانہ حوصلے سے پاک بحریہ کو اس نہج پہ پہنچا دیا کہ یہ فعال ادارہ بن کر قومی سلامتی، سمندری معیشت اور پاکستان کے بحری مفادات کی حفاظت کے لئے قابل اعتماد ادارہ بن چکا ہے۔
یہ سفر کٹھن تھا۔1965ء کی پاک۔ بھارت جنگ میں عددی اعتبار سے کم ہونے کے باوجود پاک بحریہ کی واحد آبدوز ’’غازی‘‘ نے بھارتی جنگی بیڑے کو اپنی بندرگاہوں میں محدود رکھا جبکہ پاک بحریہ کے ایک جنگی دستے نے بھارتی بحریہ کے اڈے کو جودوار کا میں تھا پہ حملہ کر کے اینٹ سے اینٹ بجادی۔
1971ء کی پاک بھارت۔ جنگ میں حالات مختلف تھے۔ واضح رہے کہ1958ء میں حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ایوب خان برسر اقتدار آگئے تھے۔ ان کے خیال میں پاکستان کو فعال بّری اور فضائی قوت کی ضرورت تھی اور بحری قوت گھٹانے کی ضرورت تھی۔ حالانکہ1951ء میں بھارتی ماہر بحری اسڑاٹیجی کے ۔ ایم ۔ پانیکرنے اپنی کتاب ’’ بھارت اور بحرہند : بھارتی تاریخ پہ بحری قوت کے اثرات‘‘India and the Indian Ocean: An Essay on Influence of SEA Power on Indian History.
میں تصور کیا تھا کہ چونکہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں ایک ہزار میل پہ مشتمل بھارتی علاقہ ہے لہذا مشرقی پاکستان کے دفاع کی خاطر پاکستان دو بحری بیڑے تیار کرے گا۔ ایک مغربی پاکستان کے دفاع کی خاطر اور دوسرا مشرقی پاکستان کے لئے۔پاکستان کے دشمن کو یہ عقل کی بات سوجھ سکتی ہے لیکن ہمارے اپنے فرمافرواء اس حقیقت سے آشکار نہ تھے۔1971ء میں بھارتی بحریہ نے بلاکیڈBlockadeلگا کر مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کا راستہ بند کر دیا ۔بھارت کے علاقہ پر سے پاکستان کی فضائی راہداری بھی بند کر دی۔ نتیجہ یہی ہوا کہ مشرقی پاکستان ہم سے کٹ گیا۔یہ خوش آئنہ بات ہے کہ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے پاک بحریہ پہ خاطرخواہ توجہ دے کر اسے ایک فعال قوت بنادیا ہے جو ضرورت پڑنے پڑ سمندر پہ، زیر سطح اور فضا سے خطرات سے نمٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ پاک بحریہ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہونے لگا صو مالیہ اور اسکے آس پاس گذرگاہوں پہ بحری قزاقوں کے حملے کا آغاز ہوگیا۔ سمندری دہشت گردی میں بھی اضافہ ہوا جسکے نتیجے میں عالمی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی تاکہ اس خطرے کا مقابلہ ایک دوسرے کے تعاون سے کیا جائے۔ پاک بحریہ نہ صرف اس عالمی ٹاسک فورس کا حصہ ہے بلکہ اسکی کمان کی ذمہ داری بھی نبھا چکی ہے۔
پاکستان کے قریب ساحلوں کے پاس اور اسکی سمندری حدود جس میں خصوصی اقتصادی زون واقع ہے اور جسکا رقبہ تو سیع کے بعد ساحلوں سے350بحری میل تک پھیل چکا ہے میں زیر سطح بیش بہاخزانے موجود ہیں۔ تیل اور گیس کے ذخائر کے علاوہ زیر سطع معدنی وسائل ہیں جن کے حصول سے پاکستان مالا مال ہو سکتا ہے۔ان وسائل کی دریافت اور زیر سطع کھوج لگانے اور انکے جائے وقوع پی مشتمل نقشے تیار کرنے کی ذمہ داری بھی پاک بحریہ نے سنبھال لی ہے۔ گزشتہ برس زیر سطح بحری وسائل کی کھوج لگانے کی خاطر پاک بحریہ نے اپنے بیڑے میں پی این ایس وی بحر مسح کا اضافہ کیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری اور بحری شاہراہ رشیم کے انعقاد اور گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر کے قائم ہونے کے بعد پاک بحریہ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ بھارت کو پاک۔ چین اقتصادی راہداری اور گوادر کی بندرگاہ کے قیام سے شدید تشویش ہے۔گذشتہ چند برسوں میں متعدد مرتبہ بھارتی آبدوزیں پاکستانی سمندروں حدود میں زیر سطع مکاری سے آکر جاسوسی کرنے کی کوشش کی لیکن پاک بحریہ کے مستعد بحری نگرانیMaritime Surveillanceپہ مامور طیاروں نے برووقت ان جاسوس بھارتی آبدوزوں کا پتہ لگا لیا اور انہیں بھگا دیا۔پی ۔ این۔ ایس یر مو ک کی شمولیت پاک بحریہ کو مزید فعال بنادے گی اور اپنی مقدس ذمہ داریوں کو نبھانے میں مدد دے گی تاکہ وہ پاکستام کی بحری حدود کے دفاع کی ذمہ داری احسن انداز سے نبھا سکے۔