یہ ایک عجیب سی مثل ہے جو میں پیش کرنے جا رہا ہوں۔ جب سے نریندر مودی نے کشمیر میں لاک ڈائون کر رکھا ہے اور 80لاکھ کشمیریوں کو ان کے گھروں میں مقید کر رکھا ہے تو میں نے ذرا دل لگا کر انڈین میڈیا کو سٹڈی کرنا شروع کیا اور جو حقائق سامنے آئے، وہ دلچسپ بھی ہیں اور عجیب بھی۔ ملکوں کے درمیان مخالفت ہوتی ہے جیسے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہے تو ایسے میں کون صحافتی اخلاقیات یا اقدار کی پرواہ کرتا ہے۔ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے، کا اصول چلتا ہے۔ پاکستان مخالفت میں انڈین میڈیا جو بھی کرے اور جس بھی حد سے گزر جائے تو ٹھیک ہے کہ جذبہ حب الوطنی کا تقاضا کچھ اور ہی ہوگا اور اس کی اپنی ایک منطق ہوتی ہے لیکن جب انڈین میڈیا کا بغور جائزہ لیا کہ انڈین میڈیا اپنے ہی ملک میں بے توقیر ہوچکا ہے اور اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ انڈین میڈیا جس بری طرح سے صحافتی عدم توازن کا شکار ہوا، اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ اشتہارات کے نام پر حکومت سے ملنے والی رشوت، اینکروں کے ہوشربا معاوضے اور اب تک کی جنگ میں انڈین میڈیا بہت بری طرح سے خود کو ایکسپوز کرچکا۔ نتیجہ اب انڈیا میں چند ایک اینکر جن میں سے ایک رمیش ورما ہیں جو حواس کھو چکے ہیں۔
ایک اینکر غالباً امیش دیوگن کا نام تو ایسے الفاظ میں لیا جاتا ہے جوکہ ہم اپنے کالم میں استعمال بھی نہیں کرسکتے۔ ان اینکروں کے رویے اس قدر تشددانہ اور جارحانہ تھے کہ مغربی میڈیا نے بھی ان کا نوٹس لیا اور سوشل میڈیا پر ان کی جانبداری کے چرچے تو عام ہیں۔ نیشنل ازم کے چکر یا اس کی آڑ میں وہ بری طرح سے خود کو ایکسپوز کر بیٹھے ہیں۔ نتیجتاً ارنب گوسوامی، سندیش چورسیا، دیوگن اور سدھیر ورما نے جس بے شرمی، ڈھٹائی اور بے حیائی سے بی جے پی سرکار کی حمایت کی اور نریندر مودی کی حمایت میں وہ جس حد تک گر سکتے تھے گرے۔ اس نے انڈین سوشل میڈیا اور انڈین عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہ اور اس طرح کے دیگر اینکرز سب کچھ ہوسکتے ہیں سوائے صحافی ہونے کے۔ یہ اینکر طاقت کے نشے میں اس قدر بدمست ہوگئے کہ انہوں نے یہ بولنا شروع کر دیا کہ شاید ہندوستان کی حکومت انہی کے مشورے کی بدولت چل رہی ہے۔ ایک طرف بی جے پی کی بے جا حمایت اور دوسری طرف انہوں نے بی جے پی سرکار کے مسلم دشمن ایجنڈے کی بڑھوتری کیلئے کچھ اس شدومد سے حصہ لیا کہ ہندوستانی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ تو صحافت کے نام پر کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔ بہار کے انتخابات ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ دورہ، دہلی میں ہونے والے انتخابات یا دہلی میں ہونے والے مسلم کش حملے ان کے پیچھے گوسوامی انجنا، سدھیر ورما اور دیوگن جیسے فروخت شدہ اینکروں کا ہاتھ ہے۔ ان متذکرہ بالا اینکروں نے پاکستان مخالفت کے دوران جس طرح صحافتی اقدار اور اصولوں کو پامال کیا اور پھر مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں جس تعصب کا مظاہرہ کیا اور مودی سرکار کی حمایت میں جو دھول اڑائی، وہ انہی کے چہروں پر آن پڑی۔ انہوں نے خود کو حکومت تصور کرنا شروع کر دیا۔ نریندر مودی کی محبت میں اور مسلم دشمنی کی نفرت میں انہوں نے تمام صحافتی اصولوں کو نظرانداز کر دیا۔ انہیں اس بات کی رتی بھر بھی پرواہ نہیں رہی کہ ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور جب آپ اس کی پرواہ نہیں کرتے تو پھر آپ کو اس کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ چنانچہ نہ تو انہوں نے ان اصولوں کی پرواہ کی، نہ سوشل میڈیا کو اس قابل سمجھا کہ اس پر ہونے والی ڈویلپمنٹ پر نظر رکھتے اور نہ ہی انہوں نے انڈین عوام کے سیاسی اورسماجی شعور کو درخور اعتناء جانا۔ بہار میں ہونے والے انتخابات میں ان کے تمام تر تجزیئے غلط ثابت ہوئے اور لالو پرشاد یادیو اور رمیش کمار کے اتحاد نے بی جے پی کا بھرکس نکال کے رکھ دیا۔ اس طرح دہلی میں ہونے والے انتخابات میں انڈین میڈیا نے مکمل جانبداری کا مظاہرہ کیا، کھل کر مودی گورنمنٹ کا ساتھ دیا اور کجریوال کے خلاف یکطرفہ مہم چلائی لیکن جب دہلی انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ گودی میڈیا کی تمام تر کاوشیں بیکار گئیں اور بی جے پی کو صرف 7 سیٹیں ملیں جبکہ کجریوال کی عام آدمی پارٹی 70 میں سے 63 نشستیں لے اڑی جوکہ انڈین میڈیا کے منہ پر طمانچہ تھا۔ اس طرح شاہین باغ میں ہونے والے مسلم اجتماع کے خلاف انہوں نے شدید منافرت بھری رپورٹنگ کی اور ٹرمپ کے ناکام دورے کے بعد دہلی میں ہندو مسلم فساد کرانے کی بھرپورکوشش کی، جس کے نتیجے میں فسادات ہوئے اور جانی و مالی نقصان بھی ہوا پھر اس کے نتیجے میں انڈین میڈیا مکمل طور پر بے نقاب ہوگیا۔ انڈین عوام نے بھانپ لیا کہ یہ میڈیا نہ صرف یکطرفہ ہے بلکہ بری طرح بکا ہوا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے انڈین میڈیا کے بارے میں جو کہا، وہ من و عن پیش خدمت ہے۔ ’’ انڈین میڈیا میں صحافیوں اور اینکروں کی ایک ایسی کلاس پیدا ہو چکی ہے جو مکمل طور پر جانبدار اور پرتشدد ہے، غیرمعمولی طور پرجارح ہے اور نیشنلسٹ ہے اور خوف و ہراس کی تجارت کرتی ہے۔‘‘ … (جاری)
’’گودی میڈیا بمقابلہ پاکستانی میڈیا‘‘
Apr 04, 2020