گیلانی کی کامیابی عمران کی طرح لیگی دوستوں کو بھی ہضم نہیں ہوئی بلاول

خیر پور (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جس طرح یوسف رضا گیلانی کی کامیابی عمران خان کو ہضم نہیں ہوئی، ویسے ہی ہمارے مسلم لیگ(ن) کے کچھ دوستوں کو ہضم نہیں ہوئی۔ خیرپور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ معیشت پر پی ٹی آئی ایم ایف کی جو ڈیل لے کر آئے ہیں اس کی ہم نے پہلے دن سے مخالفت کی ہے، جب یہ منظور ہوا تو ہم نے جگہ جگہ جا کر اس کی مخالفت کی تھی اور پاکستان کے عوام کو بتایا کہ یہ ڈیل ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ڈیل کے نتیجے میں پاکستان کے عوام کو تکلیف پہنچے گی اور اگر ریلیف ہے تو ریلیف صرف امیروں کے لیے ہے اور پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی معاشی خود مختاری کھو دی ہے۔ بلاول نے کہا کہ اب سٹیٹ بنک آرڈیننس پاس کیا گیا ہے اس سے ہماری معاشی خود مختاری پر سب سے بڑا حملہ ہونے جا رہا ہے اور پاکستان کا سٹیٹ بنک پارلیمان اور عدالت کو  نہیں  صرف اور صرف آئی ایم ایف کو جوابدہ ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ پاکستان جیسا ملک مہنگائی پر قابو نہیں پا رہا، ایوب کا دور ہو، ذوالفقار بھٹو کا دور، بے نظیر بھٹو کا دور ہو، نواز شریف کا دور ہو یا پرویز مشرف کا دور ہو، پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا اور ہم نے کبھی اتنی مشکلات کا سامنا نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیا پاکستان کی تاریخ میں مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے تعلقات کے درمیان اتنا متنازع اور کفیوژ وزیر اعظم رہا ہے کہ بھارت کشمیر کی حیثیت تبدیل کردیتا ہے، بلاول بھٹو نے کہا کہ 3 سال گزرنے کے باوجود کسی پاکستانی کو نہیں پتہ کہ اس  وزیراعظم کی پالیسی کیا ہے، کبھی وہ اپنے آپ کو کشمیر کے سفیر کے طور پر پیش کرتا ہے اور کبھی وہ کلبھوشن یادو کے وکیل بننے کی کوشش کرتے ہیں، آرڈیننس کے ذریعے کلبھوشن کو این آر او دینے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ  وزیر کامرس کہتے ہیں  بھارت کے ساتھ ہماری تجارت کو بحال کرنا چاہیے، وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ذریعے یہ پالیسی کابینہ کو بھیجتے ہیں، کامرس منسٹر عمران خان کہتا ہے کہ بھارت سے تجارت بحال کی جائے لیکن کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کہتا ہے کہ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں، یہ کس قسم کی کنفیوژن اور خارجہ پالیسی ہے کہ ایک ہاتھ کو نہیں پتہ کہ دوسرا ہاتھ کیا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے فیصلہ اکیلے کرنا وزیر اعظم کا اختیار نہیں ہے، یہ پاکستان کے پارلیمان کا فیصلہ ہے لیکن آج تک عمران خان نے کسی ایک جماعت سے بات نہیں کی، ان کا کہنا تھا کہ ہم پر مسلط کیے گئے اس وزیر اعظم میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ ہماری خارجہ پالیسی اور ملک چلائے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ جب یہ قومی اسمبلی میں ہل گئے تھے اور ان کی الٹی گنتی شروع ہو گئی تھی تو آپ اسی دن فیصلہ کرتے کہ پنجاب اور اس کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لا رہے ہیں تو اسی وقت عمران خان، بزدار اور کٹھ پتلی نظام چلا جاتا اور پورا کا پورا سیٹ اپ ختم ہوجاتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) جس کو بھی مذاکرات کے لیے نامزد کرے گی ہم اس سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ہم کسی لڑائی میں پڑنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت کی مخالفت نہیں کریں گی تو اس کا فائدہ عمران خان کو ہو گا اور ہماری کوشش یہ ہے کہ یہ کٹھ پتلی حکومت اپنی مدت مکمل نہیں کرے، اگر اپوزیشن مل کر ان کا مقابلہ کرتی ہے تو عمران خان اپنی حکومت کی مدت پوری نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کی جانب سے سینیٹ الیکشن جیتنے کے بعد نوشتہ دیوار پڑھا جا چکا ہے اور اس حکومت کو جانا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ کچھ جماعتیں پراپیگنڈا کر کے پیپلز پارٹی کو ایسے پیش کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ جیسے ہم نے کوئی ڈیل کی ہو لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہم اس قسم کی سیاست نہیں کرتے۔انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کی جلد صحتیابی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ ہیں جن پر بہت اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھیں اور کسی ایک جماعت کا ساتھ نہ دیں۔بلاول نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے پاس بہت تجربہ ہیں اور وہ چھوٹی موٹی جماعتوں کے اختلاف رائے کی وجہ سے اپنے اتحاد کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے اور مسلم لیگ(ن) کو بھی میرا مشورہ ہے کہ وہ تحمل مزاجی کے ساتھ سیاست کرے۔ان کا کہنا تھا کہ میں آج بھی امید کرتا ہوں کہ پی ڈی ایم کے صدر کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن کے درمیان اتحاد میں اضافے کے لیے غیرجانبدار اور سنجیدہ کردار ادا کریں گے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ سینٹ کا اجلاس عین موقع پر طلب کرنے کی وجہ سے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس کچھ دنوں کے لیے مؤخر کردیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ صرف ہماری پارٹی ہی پی ٹی آئی کی مخالفت کررہی ہے، باقی دوست اپوزیشن سے اپوزیشن میں مصروف ہیں ، صورتحال کا فائدہ عمران خان کو پہنچ رہا ہے، آئندہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے رابطے رکھیں گے۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہبازشریف قومی اسمبلی جبکہ حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، پارلیمانی سیاست کرتے ہوئے ہمیں قائد حرب اختلاف سے رابطہ رکھنا پڑے گا۔ ہمیں نااہل حکومت پرتوجہ دینی چاہیے۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں نیا اورشفاف الیکشن چاہتے ہیں، ماضی کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے خلاف دھاندلی ہوئی، شفاف الیکشن کل اورآج بھی ہماری یہی پالیسی ہے، ہم نے کبھی نیشنل گورنمنٹ، قومی گورنمنٹ ناکسی کی مدت پوری ہونے کا اشارہ دیا نہ آج دونگا، دوسری جماعتوں نے شائد ایسی باتیں کی ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ن لیگ کوآج بھی وہی مشورہ ہے حوصلے سے سیاست کرے، لگتاہے(ن) لیگ کویوسف رضاگیلانی کی جیت ہضم نہیں ہوئی مسلم لیگ (ن)کو بھی پیپلزپارٹی کی کامیابی پرخوش ہوناچاہئے،آر یا پارکی سیاست کے بجائے ٹھنڈے دل سے فیصلے کرنے چاہئیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...