امین یوسف
مجھے آپ اڑا دیں، مجھے آپ نکال دیں، مجھ سے نفرت کریں، گولی مار دیںیا گھر بھیج دیں ، مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ میں ہمیشہ آپ کے سامنے رہوں گا۔ میں پاکستان کے لئے اپنی جان کی قربانی دوں گا، میں پاکستان کے لئے اپنے بچوں تک کی قربانی دوں گا۔یہ تاریخی الفاظ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے تھے ۔وقت نے ان الفاظ کو سچ اور تاریخ میں امر کردیا۔آج بھی پورے پاکستان میں یہ نعرہ پوری شدت کے ساتھ گونجتا ہے ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹونے آمرضیاالحق کے سامنے رحم کی بھیک نہیں مانگی اور سولی پر چڑھ گئے۔ ان کی بیٹی اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔اسی ذوالفقار علی بھٹوشہید کے بڑے بیٹے کو کراچی میں ان کے گھر کے باہر پولیس نے گولیوں کا نشانہ بنایا اور چھوٹے صاحبزادے کی بھی غیر طبعی ہلاکت ہوئی تھی۔ بھٹو خاندان واقعی تاریخ میں اپنے آپ کو امر کرگیا۔ یہ 5 جولائی 1977 کی بات ہے جب نہ صرف ایک حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا بلکہ چند ماہ کے اندر 4 اپریل1979 کو منتخب وزیر اعظم کو پھانسی بھی دے دی گئی۔ چار دہائیوں گرزنے کے بعد بھی آج تک اس سزا کو "عدالتی قتل" تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ جو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھانا چاہتے تھے ، اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کسی آئین یا آئینی اختیار کی عدم موجودگی میں ملک کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔ وہ ملک کے سب سے زیادہ مقبول سیاستدان تھے جو اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
پیپلز پارٹی کا قیام اورسیاسی عروج
30 نومبر 1967کو لاہور میں بائیں بازو کے دانشور وں اور سوشلسٹوں کا ایک کنونشن ، ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں ہوا ۔جس کے فیصلے کی روشنی میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن اور جے اے رحیم اس پارٹی کے بانیان میں سے ہیں۔ باہمی مشاورت سے ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا پہلا چیئر مین بنایا گیا۔ اس کا منشو ر ’ اِسلام ہمارا دین ہے،جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ‘ رکھاگیا۔پارٹی نے نا صرف جاگیرداری نظام کے خاتمے کا وعدہ کیا بلکہ بے زمین ہاریوں اور کسانوں کو ’ زمین بے زمینوں کی ‘ کا پر کشش نعرہ بھی دیا گیا۔اس ترقی پسند سوچ پرملازم پیشہ اورمزدور کسان جوق در جوق پیپلز پارٹی کی جانب آنے لگے۔ لوگوں میں ’ روٹی، کپڑا اور مکان ‘ پیپلز پارٹی کا ایک ملک گیر نعرہ بن گیا ۔پیپلز پارٹی عوام کے پسے ہوئے طبقے ، ہاریوں ، مزدوروں اور طلباء میں مقبول عام ہو گئی۔
1970کے پارلیمانی انتخابات میں پیپلز پارٹی، مغربی پاکستان میں پورے زور سے میدان میں اُتری اور دائیں بازو کی سیاسی و دینی جماعتوں کو انتخاب میں شکست دے دی ۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے میدان مار لیا۔ مگر پیپلز پارٹی عوامی لیگ کے ساتھ مل کر ملک میں آئین بنانے میں نا کام رہی ۔ ان انتخابی نتائج کے بعد بھٹو صاحب نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بیک وقت دو وزرائے اعظم کی نہایت غیر معمولی تجویز بھی پیش کی ۔ 1970کے انتخابات کے بعد’ اِدھر ہم اُدھر تُم ‘ کا نعرہ بھی لگایا گیا۔جس کا اختتام بالآخر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کے لئے بنگلہ دیش کے قیام کا مؤجب بنا۔
دسمبر 19 71 میں جنرل یحییٰ خان کے اقتدار سے سبکدوش ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے بطور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اقتدار سنبھالا۔اس کے بعد 1973 کے آئین کا بننا اور تمام سیاسی پارٹیوں کا اس سے متفق ہونا بلا شبہ بھٹو صاحب کے کامیابی شمار ہوتی ہے ۔البتہ دیگرسیاسی پارٹیاں اُن کی کئی ایک پالیسیوں سے پیپلز پارٹی کی مخالف ہو گئیں۔
دسمبر 1971میں اقتدار سنبھالنے کے چند ہفتوں بعد ان کے ہاتھوں ہونے والے فیصلوں کی وجہ سے فوج اور فضائیہ کے کچھ افسران نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی بھی کوشش کی۔ تاہم ، اس کوشش کو مسلح افواج نے مل کر ناکام بنا دیا۔اس سازش کا نتیجہ تھا کہ آئین میں آرٹیکل VI کو شامل کیا گیا۔ اس صورتحال کو بھٹو کے قریب رہنے والے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء ا لحق نے انتہائی مہارت کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے منتخب حکومت کے خلاف پی این اے کی پر تشددتحریک کی آڑ میں5 جولائی 1977 کو اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے مارچ 1977 کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والے وزیراعظم کو گرفتار کرلیا گیا۔ملک میں90 دن کے اندر عام انتخابات کروانے کا اعلان توکیاگیا تاہم جلد ہی یہ بات عیاں ہوگئی کہ پی این اے کی اپنی کوئی صلاحیت نہ تھی۔پر تشدد تحریک کے نتیجے میں بھٹو کے اقتدار سے الگ ہوتے ہی پی این اے تتر بتر ہو گئی۔ اس سیاسی اتحاد میں شامل بعض جماعتیں خصوصا جماعت اسلامی جلد ہی چند وزارتوں کے عوض فوجی حکومت کی گود میں جابیٹھی ۔
جنرل ضیاالحق کو دی جانے والی خفیہ رپورٹس میںاس بات کو واضح کر دیا گیا تھا کہ گرفتاری کے باوجود بھٹو کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور جب بھی انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے اقتدار میں واپس آجائے گی ۔جس کے بعدجنرل ضیا الحق نے دائیں بازو کے پریس اور بھٹو مخالف سیاسی رہنماں کو استعمال کیا ، جنھیں بھٹو نے جیلوں میں ڈال دیا تھا۔ اس و قت یہ نعرہ دیا گیاکہ’’پہلے احتساب ، پھر انتخاب‘‘اس نعرے کیلئے مارشل لاء حکومت نے جماعت اسلامی اورمرحوم خان عبد الولی خان جیسے تجربہ کار رہنماں کی حمایت بھی حاصل کر لی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے پیپلز پارٹی کو کچل ڈالا اور پریس پر سنسرشپ لگا دی۔کارکنوں کو تشدد اور کوڑوں کی سزا سمیت اس کی قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، کیونکہ انہیں یہ خوف تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی پی پی کی جڑیںدوبارہ مضبوط ہو جائیں گی۔
تاریخ میں موجود بعض دیگرحوالوں کے مطابق دوران اقتدار پیپلز پارٹی جمہوری سوشلسٹ نظریات کے باوجود اپنے بعض نعروں سے ہٹ گئی تو 1973 سے 1975 کے عرصے میں پیپلز پارٹی کے کئی انقلابی معراج خالد ،معراج محمد خان ،جے اے رحیم ،مختار رانا اور مبشر حسن جیسے رہنماء پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ سندھ اور پنجاب کے طاقتور جاگیرداروں نے پارٹی میں جگہ بنا لی۔ زرعی اصلاحات کے برعکس پارٹی کے بائیں جانب جھُکائو کا تاثر بڑھتا رہا۔ مزدوروں کسانوں زرعی اور تعلیمی شعبے کی اصلاحات متنازع بن کر رہ گئیں۔ قصّہ مختصر 1977 تک پارلیمانی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو 9 جماعتی اتحاد کی شکل میں پاکستان قومی اتحاد سے مقابلے میں اترنا پڑا۔
ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مارچ 1977 کے عام انتخابات کے نتائج کو 9جماعتی پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے) نے دھاندلی کے الزامات لگا کر مسترد کر دیا ۔اس اتحاد میںجماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ،جمعیت علمائے پاکستان، تحریک استقلال،جماعت اہلسنت، ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی شامل تھیں۔ دھاندلی کے اس الزام کو بنیاد بنا کر قومی اتحاد کی جماعتوں کی طرف سے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف سِول نا فرمانی کی تحریک چل پڑی۔ قریب تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کسی سمجھوتے پر پہنچ جا تے لیکن اس وقت کے چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔
بھٹو کا مقدمہ اور پھانسی۔
مارشل لا کا ایک سال مکمل ہونے پر جنرل ضیاالحق نے اس روز 22رکنی وفاقی وزرا سے حلف لے لیا۔ ان میںقومی اتحاد میں شامل جماعتوں کے کئی رہنما بھی شامل تھے۔ بعد میں صدر فضل الٰہی کی مدت پوری ہونے پر ضیاء الحق نے صدر پاکستان کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ ادھر زیڈ اے بھٹو کے خلاف پہلے ہائی کورٹ پھرسپریم کورٹ میں مقدمہ قتل کے تحت کارروائی جاری تھی۔ بھٹو کی رہائی کے لیے پارٹی نے تحریک بھی چلائی۔ جگہ جگہ کارکنوں نے گرفتاریاں دینی شروع کیں ،سزائوں کے علاوہ سینکڑوں کارکنوں نے اپنی زندگیاں صرف بھٹو کے لیے ہار دیں ۔ ہزاروں جلا وطن ہوئے ۔بھٹو کیس کی 23دسمبر1978کو سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہوئی اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔5فروری سے بیگم نصرت بھٹو ، بے نظیر بھٹو ، رائو عبدالرشید سمیت ملک بھر میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ملک بھر کے تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیے گئے اور 6فروری 1979 کو عدالتِ عظمیٰ نے مقدمۂ قتل میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جناب بھٹوکی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کی توثیق کردی۔
آج کے دن 4 اپریل 1979 کو بھانسی دیئے جانے سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے ایک پریس کانفرنس میں یہ الفاظ کہے تھے ’’ یہ مجھے قتل کرکے عوام کا راستہ روکنا چاہتے ہیں اگر عوام کے حقوق کی بحالی کی جدو جہد میں قتل کر دیاگیا تو میں موت سے ڈرنے والا نہیں۔ میں عوام کے لیے ان سے پہلے اپنی جان قربان کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔‘‘42سال گزرنے کے باوجودیہ الفاظ آج بھی اس نعرے کے ساتھ زندہ ہیں’’ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔‘‘؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
جگہ جگہ کارکن گرفتار کر لئے گئے ، سینکڑوں کارکنوں نے بھٹو کیلئے اپنی زندگیاں ہار دیں ،ہزاروں جلا وطن ہوگئے
فیصلہ چیف جسٹس انوار الحق نے پڑھا ،جسٹس کرم الٰہی چوہان، جسٹس اکرم اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے اتفاق کیا جبکہ جسٹس صفدر شاہ ، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس محمد حلیم نے سزائے موت کے خلاف نوٹ لکھے۔ملک بھر کی جیلیں پارٹی کارکنوں، عہدیداروں، رہنمائوں اور دیگر ترقی پسند سیاسی کارکنوں، محنت کشوں اور ان کے لیڈروں سے بھری ہوئی تھیں اور پیپلز پارٹی کے جو سرکردہ رہنما ’’آزاد‘‘ تھے وہ کارکنوں کو تسلی دے رہے تھے کہ ’’جنرل ضیاء دنیا کے اہم ممالک کی اپیلوں کو نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا‘‘جنرل ضیاء کی حکمت عملی یہ تھی کہ ’’غیر یقینی‘‘ صورتحال برقرار رکھی جائے تاکہ کوئی بڑی مزاحمتی تحریک منظم نہ ہوسکے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
پارٹی کو اپنے خیالات کے پرچار کے لئے اس وقت شائع ہونے والے اخبارات ’’ نصرت ‘‘، ’’ فتح ‘‘ او ر روزنامہ ’’ مساوات ‘‘ میسر تھے۔ بہت جلد مغربی پاکستان میں پاکستان ۔ پارٹی لیڈران اور خود بھٹو صاحب نے صدر ایوب کے خلاف غصہ اور مخالفت کی مہم شروع کر دی جو ترکِ موالات ، نافرمانی اور لاقانونیت میں تبدیل ہو گئی اور صدر ایوب کو پاکستان پیپلز پارٹی سے بات کرنے پر مجبور کر دیا۔اِن مسلسل لڑائی جھگڑوں نے 1969میں صدر ایوب کو بالآخر صدارت سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ اِس پر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء کا نفاذ کر کے دو سال میں انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔اس تمام عرصہ میں پیپلز پارٹی کے خوش کن نعرے اپنا کام کرتے رہے ۔
،،،
xxxxxx
xxxxxx
سیاسی تحریک کا خاتمہ کردیا جیسا کہ آج کل یہ فریضہ پیپلز پارتی انجام دے رہی۔ اس وقت
xxxxxxx
ڈی فیکٹو حکمرانوں کے غیر آئینی اقدامات کو بچانے میں عدلیہ کا کرداربھی خاصا اہم اور متنازعہ رہا اور ان کے سامنے ہمیشہ نظریہ ضرورت کی گردان رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر ایسا ہی ہوا،جب بھٹو کی بیٹی ، بینظیر ، 10 اپریل 1986 کو چار سال کی جلاوطنی کے بعد واپس لوٹی تو لاہور میںجئے بھٹو کے نعروں کے ساتھ لاکھوں لوگوں نے ان کا استقبال کیا ،ہر طرف بھٹو زندہ باد اور بھٹو زندہ ہے کا نعرہ گونج رہا تھا جو آج تک سنائی دیتا ہے۔۔
۔۔جنرل ضیاالحق جانتے تھے کہ بھٹو مضبوط اعصاب کا آدمی تھا۔ بھٹو کے ایک قریبی ساتھی ، مرحوم غلام مصطفی جتوئی نے اپنی وفات سے چند ہفتے قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ انہوں نے بھٹو کو بچانے کی پوری کوشش کی ہے۔ انہوں نے جنرل ضیا سے جنرل کے ایم عارف کی موجودگی میں ملاقات کی اور ان سے بھٹو کو بچانے کی درخواست کی۔ میں نے بیگم بھٹو کو اعتماد میں لیا تھا لیکن بھٹو نہیں مانے۔ضیا جانتے تھے کہ اگر انہوں نے بھٹو کو پھانسی دے دی تو کوئی ان کو للکار نہیں سکتا تھا۔؛؛؛؛
xxxxxx
۔۔۔۔۔یہاں ایک سوال اُٹھتا ہے کہ جب اس پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایسی کوئی منظم انتخابی مہم نہیں چلائی نہ وہ وہاں کبھی فعال ہی ہوئی تو پھر پارٹی لیڈر چِلّا چِلّا کر اپنے آپ کو قومی لیڈر کیسے کہہ سکتے ہیں؟اس طرح قومی سطح پرپیپلز پارٹی کو ایک فیصلہ کُن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابی نتائج میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی 300نشستوں میں سے160 نشستیں حاصل کر لیں؛ جب کہ پیپلز پارٹی ،مغربی پاکستان کی قومی اسمبلی کی 138نشستوں میں سے صرف 81 نشستیں حاصل کر سکی۔یہاں
؛؛؛؛؛؛؛؛؛
دوسرے الفاظ میں آپ اور آپ کی پاکستان پیپلز پارٹی نے طے کر لیا تھا کہ آئینی اور قانونی طور پر مشرقی پاکستان کے شیخ مُجیب کو ملک کا وزیرِ اعظم نہیں بننے دینا۔کیسی عجیب بات ہے کہ آپ نے مشرقی پاکستان میں اپنی پارٹی کی سرے سے کوئی سرگرمی ہی نہیں دکھائی نہ موجودگی ہی ثابت کی اور اپنی پارٹی کا نام ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ کہلوایا۔بہر حال اقتدار میں آتے ہی نئی لیبر پالیسی کا اعلان کیا گیا اور ایٹمی منصوبے کے پروگرام پر سرگرمی دکھائی گئی۔۔۔۔۔