لاہور (صباح نیوز + مانیٹرنگ نیوز) مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی بے اصولی کو معاف نہیں کیا جاسکتا، پیپلز پارٹی بے اصولی پرقائم رہی تو اس کا پی ڈی ایم کے ساتھ چلنا مشکل ہوجائے گا۔ پیپلز پارٹی نے سینٹ میں اپوزیشن لیڈرکے لیے جس طرح ووٹ لئے وہ غلط تھا، رضا ربانی، اعتزاز احسن اور مصطفی نواز کھوکھر نے بھی پیپلز پارٹی کے اقدام سے اختلاف کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی غلطی کو تسلیم کرے۔ دریں اثناء انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج شاکر حسین کے تبادلے کے باعث مسلم لیگ (ن) کے صدر رانا ثناء اللہ سمیت دیگر ملزموں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی نہ ہو سکی۔ عدالت نے مزید سماعت 17 مئی تک ملتوی کر دی۔ دوسری جانب احسن اقبال نے کہا ہے کہ جب گول کرنے کا وقت آیا پیپلز پارٹی نے حکومت سے ہاتھ ملا لیا، بی اے پی کو ساتھ ملا کر سینٹ میں اپوزیشن کا عہدہ لیا گیا، جانتے ہیں کون کون سی چال چلی جارہی ہے؟ نوازشریف اسمبلی میں ہیں نہ کسی عہدے پر، ان کو استعفوں کے ساتھ نتھی کرنا درست نہیں، حمزہ کا نام لینا چالاکی، بلاول بھٹو پارٹی چیئرمین ضرور ہیں لیکن ابھی سیاست سیکھیں۔ پی ڈی ایم کو قائم کرنے کا مقصد بہت واضح تھا کہ ملک کا نظام ٹھیک کرنا ہے، اس کے لیے ملکر جدوجہد کرنا ہو گی، کیونکہ اس حکومت کی حیثیت کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ دھاندلی سے جیت کر آئے ہیں۔ ہم نے سینٹ میں یوسف رضا گیلانی کو پوری طرح سپورٹ کیا، جس سے وہ کامیاب ہوئے، چیئرمین کے انتخاب پر بھی یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا گیا۔ چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں جو سات ووٹ مسترد ہوئے ہیں وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے لوگ ہیں۔ اس میں ہمارا کسی قسم کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس بات پر صدمہ ہوا کہ ہماری مشاورت کے بغیر پیپلز پارٹی نے یکطرفہ طور پر حکمران جماعت کے ساتھ مل کر قائد حزب اختلاف حاصل کر لیا۔ سپیکر کے معاملے پر ہمارا مؤقف واضح ہے، چاہتے ہیں اپوزیشن اتحاد کے اندر تمام فیصلے اس اتحاد میں کیے جائیں نہ کہ فرد واحد کے طور پر کیے جائیں۔ اس وقت ششدر ہیں کہ کون سے ایسے حالات ہیں کہ پیپلز پارٹی نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے بجائے اپنے فیصلے شروع کرنے پر مجبور کیا۔ اس وقت نظام اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ لانگ مارچ کے بعد پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں مستعفی ہو جاتی تو یہ نظام ریت کے قلعہ کی طرح گر جانا تھا۔ لیکن پیپلز پارٹی نے فیصلے بدل لیے۔ جبکہ نو جماعتیں استعفوں کے حق میں تھیں۔ پنجاب میں تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ صوبے میں اپوزیشن کے پاس 160 سیٹیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کی صوبے میں محض 6 سیٹیں ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی والے ایسے تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے پنجاب میں حکومت اور عدم اعتماد کا کھیل ان کے پاس ہے۔ اگر موقع آیا تو مسلم لیگ ن عدم اعتماد کے لیے سب سے آگے آئے گی۔ مسلم لیگ ن صرف مریم نواز کا نام نہیں ہے۔ اس میں قائد مسلم لیگ ن بھی ہیں، شہباز شریف بھی ہیں، شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر سینئر لوگ بھی موجود ہیں۔ ہم سب سیاسی تجربہ بلاول بھٹو کی عمر سے زیادہ ہے۔ مسلم لیگ ن میں کوئی دو دھڑے نہیں ہیں۔ بلاول بھٹو کے فیصلے سے بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے آپ کوئی شطرنج لگانے کی چال چل رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اتحاد بنانے کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، بتانا چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی اے پی سی میں پی ڈی ایم بنی۔ پیپلز پارٹی‘ بی اے پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ الائنس بنا کر عملاً پی ڈی ایم سے علیحدہ ہو چکی۔
پی پی کی بے اصولی معاف نہیں کی جاسکتی راناثنا عملا پی ڈی ایم چھوڑ چکی احسن اقبال
Apr 04, 2021