بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان کشمیر کے تنازع سمیت بھارت کے ساتھ تمام دیرینہ مسائل کو سفارت کاری اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اگر بھارت آمادہ ہو تو پاکستان اس راستے پر پیش رفت کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم بھارت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر سپرسانک کروز میزائل گرانے کے واقعہ کے بارے میں پاکستان اور عالمی برادری کو تمام شواہد کی فراہمی یقینی بنائے گا۔ اسلام آباد میں سکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان کیمپ کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا اور چین اور امریکا دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) معاہدہ بہت اہم ہے۔ پاکستان کو روس یوکرائن تنازع پر تحفظات ہیں، روس کا یوکرائن پر حملہ افسوس ناک ہے۔ روسی جارحیت بہت بڑا سانحہ ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ روسی جارحیت کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔ آرمی چیف نے کہا کہ ہم امریکا سے بھی بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ امریکا پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے۔ ہم چین اور امریکا دونوں کے ساتھ اس طرح اپنے اچھے تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں کہ ایک کی وجہ سے دوسرے سے تعلقات متاثر نہ ہوں۔ جنرل قمر باجوہ نے مذکورہ بالا خیالات کا اظہار ایسے حالات میں کیا ہے کہ جب وطن عزیز میں پاک امریکا تعلقات میں بوجوہ پیدا ہونے والی شکررنجی عوامی ، سیاسی اور سفارتی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی تاریخ بڑی طویل ہے جسے صدر جنرل ایوب خان نے اپنے دور میں پروان چڑھایا اور جو وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتی چلی گئی، اگرچہ مختلف مواقع پر اس میں بہت نازک موڑ بھی آئے لیکن اس کے باوجود تعلقات بہرحال قائم رہے۔ اب حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ تحریکِ عدم اعتماد کو وزیر اعظم کی طرف سے بیرونی طاقت (امریکا) کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد امریکی ناظم الامور کی دفترِ خارجہ طلبی نے پاکستان اور امریکا کے درمیان دوستانہ تعلقات میں سردمہری کی جو کیفیت پیدا کر دی ہے اس کے تناظر میں آرمی چیف کا امریکا، چین اور روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بیان ہماری خارجہ پالیسی کی سمت کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہماری موجودہ سٹریٹجک پوزیشن اور انتہائی کمزور معاشی صورتحال بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جس طرح چین کے ساتھ ہماری دوستی مثالی ہے اسی طرح ہمیں امریکا کے ساتھ بھی پارٹنر شپ برقرار رکھنے اور اسے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے صرف اسی صورت میں ہم ملکی ترقی، خوشحالی اور استحکام کو یقینی بنا سکتے ہیں۔