ہم ایک ایسے شخص کو کیسے یاد کریں؟ کیسے خراج عقیدت پیش کریں؟ جو اس کی شخصیت کے مطابق ہو۔ الفاظ حق ادا کر نہیں سکتے۔ جذبات کاغذ پر منتقل ہو نہیں سکتے۔ وہ تھا تو بڑا تھا، شہید ہوا تو بہت بڑا ہو گیا۔ وہ تھا تو نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر کے پسماندہ عوام کی خواہشات ، عزت اور احترام کے لیے سامراجی ذہن اور سامراجی طاقتوں کو للکارتا تھا۔ وہ علامہ اقبال کی شاعری کی عملی تصویر تھا…اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، کاخ اُمرا کے درو دیوار ہلا دو…اس نے انہیں غلامی کی زنجیریں توڑ دینے اور عزت سے سر اٹھا کر جینے کا درس دیا۔ وہ حسینیت کا پیام برتھا اور وقت کے یزید کے ہاتھوں جرأت اور دلیری سے پھانسی کا پھندا چوم کر امر ہو گیا۔ جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا۔ وہ پاکستان کے لیے فخر کا باعث تھا اعزاز تھا۔ دنیا اس میں پاکستان کا چہرہ دیکھتی تھی ایک غیرت مند قوم کا آبرو مندانہ چہرہ وقت کی قید و بند سے آزاد اس کی شخصیت اس کے افکار دنیا بھر کے سیاستدانوں، شاعروں اور دانشوروں کے لیے مشعل راہ بن گئے اس نے نہ صرف اپنے ہم عصروں کو متاثر کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی جدوجہد کی مثال ہے اور آج بھی پاکستان کے شہروں، دیہات اور گلی محلوں میں ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے گونجتے ہیں۔ اس نے مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کی کوشش کی۔ ان کی آنکھوں میں جن میں آنسوئوں کے سوا کبھی کچھ نہیں تھا اس نے ان کے بہتر مستقبل کے خوابوں کی تعبیر دینے کی کوشش کی اور یہی کوشش اس کی شہادت کا باعث بن گئی۔ میرے قائد کو احساس تھا کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس نے پاکستان کی زمین بھارت سے واپس لی وہ جنگی قیدیوں کو عزت سے واپس لایا۔ قوم کو ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ دیا جو پاکستان کی حفاظت کا ایک بہت ہی اہم عنصر ہے۔ میرے قائد کا ایک ہی خواب تھا ہر پاکستانی کو روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کرنا، امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا۔ اس نے مزدور، کسان ، صحت ، تعلیم، انجینئرنگ، سائنس و ٹیکنالوجی، دفاع اور خواتین کے حقوق غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں ایک صحیح سمت دی اس نے پانچ سال میں ایک ہارے ہوئے پاکستان اور ایک شکست خوردہ قوم کو دنیا میں ایک باوقار مقام دیا۔ پاکستان کو خوش حال اور مضبوط مستقبل کی منزل کی طرف رواں دواں کرنا، خودانحصاری کی منزل کی طرف گامزن کرنا، اس نے اپنی ز ندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔ میرے قائد نے پاکستان کو 1973ء کا آئین دیا۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس کامرہ ری بلڈ فیکٹری ، قراقرم ہائی وے، درہ خنجراب سے پورٹ قاسم تک رابطہ غرضیکہ وطن عزیز کے ہر حصے میں انمنٹ نشان چھوڑے۔ پاکستان کے ذریعے ذرے سے اس کی والہانہ، عقیدت اور محبت کے نشان، اس لیے پاکستانیوں کی تیسری نسل بھی نعرہ لگاتی ہے: جئے بھٹو۔19 دسمبر 1971ء کو جنرل یحییٰ خان نے ایک ٹوٹا ہواپاکستان ایک شکست خوردہ پاکستان میرے قائد کے حوالے کیا۔
1971ء کی جنگ کے نتیجے میں نوے ہزار پاکستانی فوجی افسر اور جوان بھارت کی قید میں تھے۔ چھ ہزار مربع میل کا علاقہ بھارت کے قبضہ میں تھا۔ 27 جون 1972ء کوشملہ جاتے ہوئے قائد عوام نے کہا کہ میں امن کی تلاش میں جارہاہوں اور وطن کی عزت اور وقار بحال کرکے واپس آجاؤں گا۔ شملہ معاہدہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا تاریخ ساز اور بہت بڑا کارنامہ تھا۔ فوجی قیدی واپس وطن لوٹ آئے۔ مقبوضہ علاقہ پاکستان کو واپس مل گیا۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کو اس معاہدہ پر آمادہ کیا کہ میں اگر ناکام لوٹ کرگیا توپھر سے جنگ کی راہ ہموارکی۔ذوالفقار علی بھٹو ایک کرشمہ ساز ایک طلسماتی شخصیت تھے جہاں ضرورت محسوس کرتے خود پہنچتے۔ان کے دشمن نے ان کو شہید تو کر دیا لیکن ان کے دور میں کرپشن کا ذکر بھی سننے میں نہیں آتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے انہیں کام کرنے کی بے پناہ ہمت اور صلاحیت عطا کی تھی۔ ان کے ذہن پر ہر وقت قوم اور ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کی دھن سوار رہتی تھی۔ صرف چار پانچ گھنٹے کی نیند کو وہ کافی سمجھتے تھے۔ اپنے جاگیردارانہ پس منظر کے باوجود عیش و آرام طلب ہونے کی بجائے دور دراز کے دیہات میں رہنے والوں سے مسلسل رابطہ رکھتے تھے چلچلاتی دھوپ میں ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے مسائل سنتے اور روہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھاتے۔ اوفات اور مذہبی امور کی علیحدہ وزارت بھی انہیںکے دور میں قائم کی گئی۔ لاہور میں اسلامی کانفرنس کا انعقاد عالم اسلام کو اکٹھا کرنا اور ایک عالمی طاقت بنانے کی کوشش کا حصہ تھا انہیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ تاریخ میں انہیں کس حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔