روز و شب کی گردش اپنی ہمیشہ کی رفتار کے مطابق چلتے ہوئے پھر رمضان المبارک کے مقدس مہینے تک آ پہنچی ھے- اللہ تعالی نے اس مہینے کو اور اس مہینے کے دن اور اس کی راتوں کو دوسرے دنوں اور راتوں سے ایک خاص امتیاز بخشا ھے۔ یہ نیکیوں کی سوداگری کا مہینہ ھے، اس ماہ میں ہر نیکی اور طاعت کا بھاوّ بڑھا دیا جاتا ھے، اور بڑھانے والا وہ ھے جس کے یہاں لامحدود خزانہ ھے، جس کے یہاں لیت و لعل نہی ھے، جس کے یہاں بغض و امساک نہی ھے، جس سے عہد شکنی کا کوئی اندیشہ نہی ھے، جس کے یہاں سود و زیاں کا کوئی مسئلہ نہی، اس کے دربار سے جو وعدہ صادر ہوتا ھے، وہ بڑھ چڑھ کر پورا ہوتا ھے، عالم قدس میں اس مہینے کا خاص اہتمام ھے، اہل ایمان کی دائمی قیام گاہ " جنت " کو اس ماہ میں نیا رنگ و روغن بخشا جاتا ھے، یہ مہینہ ایمان و عمل کی باد بہاری کا مہینہ ھے، اس مہینے میں صرف آنے والوں کا ہی اعزاز و اکرام نہی کیا جاتا بلکہ منہ موڑنے والوں کو بھی پکار پکار کر بلایا جاتا ھے کہ برائی کی طرف دوڑنے والو ٹھہرو ذرا دیکھو تمھارے لئے کیا کیا انتظام ھے،. اللہ اللہ کیا شان کریمی ھے کہ جو آقا ھے ، خالق و مالک ھے، قادر مطلق ھے، سب کچھ اختیار رکھتا ھے، سب سے بے نیاز ھے، وہ اپنے بندوں کو غلاموں کو بندیوں کو پکارتا ھے بلاتا ھے، انکو بلاتا ھے جو بیبس اور محتاج ہیں، لیکن مالک کی شان رحیمی نے ایک محدود اور مختصر سا اختیار بخش دیا ھے، تو اسی کے بل پر لگتے ہیں سرکشی کرنے، انھیں بھاگنے والے غلاموں کو اپنے لطف و کرم سے بلاتا ھے کہ آوّ میں تمھیں معاف کرنے کے لئے تیار ہوں- قربان ہونے اور مرمٹنے کا مقام ھے، کہاں ہیں بوجھ سے دبے ہوئے بندے؟ کہاں ہیں آفت کے مارے ہوئے غلام ؟ کہاں ہیں روزی سے پریشان بھوکے؟ کہاں ہیں رحم و کرم کی آس لگائے ہوئے مساکین؟ کہاں ہیں زمانے کے ٹھکرائے ہوئے فقراء ؟ آئیں آگے بڑھیں قریب ہوجائیں ، ہاتھ بڑھائیں، دامن پھیلائیں مانگتے جائیں اور پاتے جائیں بخشش عام ھے۔ رحمت تمام ھے، محروم وہی ھے جو اس دریائے فیض کو پا کر بھی محروم رھے، بدقسمت وہی ھے جو رب عالی کی پکار پر بھی سوتا رھے اور اسکی آنکھ نہ کھلے، اے دنیاوی آفات میں مبتلا انسانوں ! تم اپنے مصائب کا علاج اور مشکلات کا حل کہاں ڈھونڈ رھے ہو ؟ تمھارے معاملات کا سرا یہاں اس عالم میں نہی ھے، ان کا سرا عالم غیب میں ھے۔ عالم غیب ہی کے اشارے پر یہاں سب کچھ ظاہر ہوتا ھے، یہاں کی تدبیریں کچھ نہی ہیں، اگر وہاں کا اشارہ صادر نہ ہو تو کچھ نہی ہو سکتا، لہذا اپنی جدوجہد کا رخ ادھر ہی پھیر دینے کی ضرورت ھے۔ عالم غیب تک رسائی عالم غیب ہی سے ہوتی ھے، خواہ وہ ذکر و عبادت ہو یا حسن سلوک، اور اخلاق حسنہ ہو یا دعا و مناجات، ( اسی کی جناب میں کلمہ طیبہ پہنچتا ھے اور عمل صالح اس کو اوپر اٹھاتا ھے ) کلمہ خبیثہ ( کفر ) اور اعمال بد تو پستی میں پھینک دئیے جاتے ہیں، ان کے لئے آسمان کے دروازے نہی کھولے جاتے ہیں۔ بیشک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا، انکے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے۔ تو ایمان والو اصول یہی ھے اور حقیقت بھی یہی ھے کہ کلمہ طیبہ اور اعمال صالحہ عالم غیب کے حدود مملکت میں داخلہ پاتے ہیں- ہر الجھاوٰ کے سلجھاوٰ اور ہر مصیبت سے راحت اور ہر کلفت سے نجات کا واحد راستہ یہی ھے کہ آدمی کے قلب، زبان، ہاتھ پاوّں، آنکھ کان اور جسم و جان سے اچھے اعمال کا صدور ہو، یہی اعمال آغوش رحمت میں پہنچ کر اس دنیا کے حالات کو درست کرائیں گے اور اس کے لئے رمضان کا مبارک مہینہ بہت ہی سازگار
ھے ۔ روزے کا اہتمام کریں، روزے کو مکروہات سے بچانے کا اہتمام کریں، یہ عبادت دن کی ہمہ وقت عبادت ھے، روزہ کو فضولیات اور گناہ کے کاموں میں پڑ کر برباد مت کریں- دنیاوی کاموں کو گھٹا کر عبادت کے کاموں کو بڑھا دیں، قرآن پاک کی تلاوت ذکر اللہ کی کثرت، مساجد میں حاضری اور تراویح کا اہتمام کریں، ہو سکتا ھے یہی محنت سال بھر کی برکتوں کو سمیٹ کر آپ کے دامن میں ڈال دیں اور پھر سال بھر آپ اس سے مستفید ہوتے رہیں - جس کا رمضان بخیر و عافیت گزر گیا وہ پورے سال خیر وعافیت کا فائدہ پاتا رہتا ھے سورہ البقرۃ : 183 اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو تمھارے اوپر روزہ اس طرح فرض کیا گیا جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تاکہ تم متقی ہوسکو!