تبدیلی کا حقیقی پیامبر بھٹو شہید تھا وہی رہے گا

عترت جعفری

4 جولائی1979ء کا دن پاکستانیوں کوکبھی نہیں بھول سکتا ،جب اس ملک کے منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔یہ آمریت کا زمانہ تھااس زمانے میں راقم سکول  میں پڑھا کرتا تھا ۔ اس روزجب صبح جب سکول جانے کی تیاری کر رہا تھا اور بہن بھائی بھی اسی طرح تیاریوں میں مصروف تھے ۔گھر میں ریڈیو  چل رہا تھا جس پر عام طور پر خبریں سنی جاتی تھیں،ابھی گھر میں کسی کا معلوم نہیں تھا کہ کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ،خبروں کا وقت ہوا اور نیوز ریڈر نے خبر پڑھی کہ سابق  وزیر آعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے ،اس پر گھر میں صدمے  کی کیفیت کو محسوس کیا ،والد گرامی سخت دل گرفتہ تھے۔گھر میں  اخبارات آیا کرتے تھے ،اخبار بینی ہر فرد کی عادت تھی ،میں بھی سکو ل سے واپسی پر اخبار کا مطالعہ ضرور کرتا تھا ،اس لئے مجھے ان کے خلاف جعلی  مقدمہ قتل  اور اس پر  دی جانے والی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کا علم تھا ،پھر ایک روز اپیل کے اکثریتی فیصلے سے مسترد ہونے کی خبر بھی پڑھی تھی،اگرچہ اس وقت کی باریکیوں کا زیادہ علم تو نہیں تھا،مگر  اس زمانے میں جو سیاسی حالات رہے ان کی سمجھ تھی،کبھی کبھی والد گرامی کے دوست گھر آتے تھے تو ان میں سیاسی بحث بھی چھڑ جاتی تھی ،اور زور زور سے  دلائل دئے جاتے تھے ،یہ باتیں بھی ذہن میں چپک سی جاتی تھیں ،غرض اس خبر کو سن کو  جو پہلا تاثر بنا تھا وہ دل میں گھر کر جانے والی اداسی تھی۔ ،سکول چلا گیا ،مگر سوال ذہن میں ہمیشہ رہے کہ عالمی سطح کے لیڈر منتخب وزیر اعظم اور اس ملک کے اندر حقیقی تبدیلی لانے کے پیامبر کو آخر کس جرم کی سزادی گئی،برسوں  بعد جب میں عملی زندگی میں آیا اور صحافت کو بطورپیشہ  اختیار کیا،مطالعہ اور سوچ میں وسعت آئی تو بہت سے سولات کے جوابات مل گئے اور ہنوز ابھی بھی کچھ باقی ہیں ،میں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کو ایک دو بار بہت  قریب سے دیکھا تھا،وہ لمحات آج بھی میری آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں،یہ نہ بھولنے والے لمحات ہیں،اس کو خوش قسمتی ہی سمجھو ں گا،1928 سے  1979ء تک محض51سال کی عمر میں اگر کوئی تبدیلی کا حقیقی پیامبر ثابت ہوا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید ہی تھے ،اور وہی رہیں گے ۔اعلی تعلیم یافتہ،وسیع مطالعہ اور غریب کے مسائل کی سمجھ،اس کے ساتھ وژن،کام کا جنون اور درست حکمت عملی،یہ وہ خوبیاں ہیں جو کسی کو عالمی لیڈر بنا دیتی ہیں۔تاریخ  گواہ ہے غلط طور پر کئے جانے والے دعووں میں  ظاہر کیاجاتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں ملک   ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔حالانکہ یہ ترقی  خاص طبقے  تک محدود تھی  ،اس زمانے کی اشرافیہ ریاست کے وسائل کی بنیاد پر تیزی سے امیر سے امیر تر ہوتی چلی جا رہی تھی ،22خاندان وجود پا  چکے تھے ،غریب غریب تر ہو رہا تھا ،ملک کے دو حصوں کے درمیان تضاد بڑھ رہا تھا جس کو مسلسل نظرانداز کیا جا تارہا ۔ ذولفقار علی بھٹو نے جلد بھانپ لیا تھا کہ ملک کے اندر معاشی تفاوت اور ظلم کا شکار لوگوں کو زبان کی ضرورت ہے ،ان کا ترجمان ہونا چاہئے ،35سال کی عمر میں انھیں آگے بڑھ کر غریب کی قیادت کا موقع  ملااور اعلان تاشقند  کے مسئلے پر صد ایوب خان  کے ساتھ اختلاف کی صورت میں وہ  ملک و قوم کے نجات دہندہ بن کر ابھرے۔ سیاست کو سوجھ بوجھ اور ذہانت اور عوام کی نبض شناسی نے ان کو سمجھا دیا تھا کہ عوام ایک قائد کی تلاش میں ہیںاور وہ ان کو قیادت  دے دسکتے ہیں ،یہی وہ ماحول تھا جس  کے ہوتے ہوئے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی ،اس پارٹی کو اس وقت جو پذیرائی ملی  اس کی نظیر نہیں ملتی ،1970کے انتخابات میں یہ کہنا شائد غلط نہ تھاکہ پی پی پی کاٹکٹ اگر   کھمبے کو بھی مل جاتا تو یہ اس کی کامیابی کی ضمانت بن جاتا ۔
سیاست کے رموز سمجھنے والے جانتے ہیں کہ 1970اور1971ء کے درمیان جو واقعات ہوئے اور جو ملکی تاریخ کا خونچکاں حصہ ہیں،ان کی بنیاد دو برسوں میں نہیں پڑی تھی ،یہ آزادی کے بعد عوام کے حق کو دبانے ،طاقتور حلقوں کی جانب سے استحصال اور ریشہ دوانیوں کے باعث رونماء ہوئے ،ان کو سمجھنا ہے تو اس زمانے پر لکھی ہوئی کتابیں پڑھ لیں،جن کا احتساب ہونا چاہئے تھا وہ احترام  کے لبادے اوڑھے رہے،تاہم اس باقی ماندہ پاکستان کو اگر بچانے کے لئے اگر کسی نے آگے بڑھ کر عمل کیا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے ،ذہن میں انقلاب لائے ،غریب کو زبان دی اور اس کو کہنے کے قابل بنایا کہ وہ ہی دراصل اس ملک کے اصل وارث ہیں ۔اس زمانے میں جب ہر جانب دولت کے ارتکاز جیسا  قومی سطح کا مسئلہ  درپیش تھا ،انہوں نے صنعتوں کو قومیا نے کا اعلان  ۔اس پر اب بحث کرنا آسان ہے کہ کیا یہ درست فیصلہ تھا مگر اس دور کے معروضی حالات میںاسے  ہمیشہ ایک چیلنج ہی سمجھا جائے گا ، جسے قبول کر کے بھٹو نے ملک کے غریب عوام کے ساتھ اپنا عہد نبھایا۔اس کی وجہ سے لاکھوں محنت کشوں کو ملازمت کا تحفظ ملا ،اور ان کی آمدن بڑھی ،آج تک کے پاکستان میں جس جانب بھی چلے جائیں ذولفقار علی بھٹو کے نقش پا نظر آتے ہیں ،نئی تعلیمی ادارے بنے ،میں خود اس یونیورسٹی میںپڑھا جس کی بنیاد ذولفقار علی بھٹو نکے ہاتھوںرکھی گئی۔ ملکی سطح پر  جس کسی بھی خاص ادارے کے نام لیتے چلے جائیں ،یہ سب عوامی دور میں بنائے گئے ،اب اس پر تو کوئی بحث نہیں کی جاتی اور تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اس ملک کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ذولفقار علی بھٹو نے رکھی تھی، یہی وہ سٹریٹیجک پروگرام تھا جس نے ملک کے دفاع کو ناقابل شکست بنا دیا۔ملک کے اندر اسلامی سر براہی کانفرنس کرائی،یہ مشکل  حالات میں ہوئی ،عدالتیں بنی ،اور متفقہ آئین  دیا،یہ تین ایسے کارنامے  ہیں جن کا رہتے پاکستان تک کوئی ہمسری نہیں کر سکے گا ۔یہی کارنامے اور  تبدیلی کے  لئے  اٹھائے گئے اقدامات دشمنوں کی آنکھوں کے کھٹکتے بھی تھے،،وہ ملک پر اپنی کمزورپڑتی ہوئی گرفت سے خوفزدہ تھے۔سازشوں کی جال  بنے گئے ،اندرونی اور بیرونی دشمن ایک ہو گئے ،الیکشن کی جیت پر دھاندلی کا الزام لگایا گیا اورملک پرآمریت مسلط کر دی گئی۔پھر اس کے بعد انتقام در انتقام ،آمریت کے ہاتھوں 4اپریل 1979ء کو وہ سانحہ ہوا جسکی مذمت میںہر سال عزم و استقلال کے ساتھ بھٹو شہد کی برسی منائی جاتی ہے ،جس کی حقیقت کو کبھی مٹایا نہیں جا سکے گا ۔  شائد ہی کسی راہنما کو اتنی مختصر زندگی میں اتنا بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہو ۔
 ذوالفقار علی بھٹو کا دور مسلسل اصلاحات سے عبارت رہا، دو دفعہ ملک میں زرعی اصلاحات کی گئیں ۔ان کے دور حکومت میں عام شہر یوں کے لئے پاسپورٹ کی سہولت کو کھولا گیا جس کی وجہ بے شمار پاکستانی شہریوں کو عرب  ممالک میں کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے۔پاکستان سٹیل ملز،ایچ ای سی،ہیوی ری بلڈ فیکٹری ،،کامرہ ائرو ناٹیکل کمپلیکس،اس دور کے ہی کارنامے ہیں۔بھٹو شہید ہی کے دور میں ملک میں لیبراصلاحات کی گئیں،ان کے کارنامے ان گنت ہیں،جن کا احاطہ اس مختصر تحریر میں نہیںکیا جا  سکتا ہے ،عالم اسلام کو اکھٹا کرنے کی کوشش،عربوں کو تیل کے ہتھیار سے آشنا کرنے کے معاملات ان کے خلاف بین الاقومی سازش کا باعث بن گئے،ملک میںآمریت مسلط  کر دی گئی جس نے پہلا کام سیاسی  و شہری حقوق کو معطل  کرنے کا کیا  اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ذولفقار علی بھٹو کو جسمانی طور پر ہٹانے کا  فیصلہ کر لیا گیا۔ اس فیصلے کو تاریخ آج بھی عدالتی قتل کے نام سے یاد کرتی ہے۔آمریت نے ان کو جسمانی طور پر تو ہٹا دیا مگر بھٹو ازم کا فلسفہ آج بھی زندہ ہے جس کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے آگے بڑھایا  اور آج اسی عمل کو لے کر ان کو نواسہ بلاول بھٹو آگے  بڑھ رہا ہے ۔

اس زمانے میں جب ہر جانب دولت کے ارتکاز جیسا قومی سطح کا مسئلہ درپیش تھا ،انہوں نے صنعتوں کو قومیا نے کا اعلان کیا

ای پیپر دی نیشن