iذولفقار علی بھٹو شہید

غلام زہرا
ghulamzahira@yahoo.com
سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کا شمار دنیا کے عظیم رہنمائوں میں ہوتا ہے۔  وہ ایک تاریخ ساز اور عہد آفریں شخصیت تھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام اور ناقابل فراموش کردار ہیں۔ وہ انتہائی مدبر سیاستدان، اعلی تعلیم یافتہ، بے حد وسیع المطالعہ، وقت کے نبض شناس اور منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے دنیا سے اپنی خطابت و ذہانت کا لوہا منوایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام خامیوں اور بشری کمزوریوں کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت آج بھی ان کا احترام کرتی ہے۔
و الفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کیلی فورنیا اور آکسفورڈ سے قانون کی تعلیم حاصل کی، کچھ عرصہ مسلم لا ء کالج کراچی میں درس و تدریس سے وابسطہ رہے،1953 میں سندھ ہائیکورٹ میں وکالت شروع کی، وہ پہلے ایشیائی تھے جنھیں انگلستان کی یونیورسٹیسائو تھمپئین میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔
1963 میں جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر مقرر ہوئے تاہم سیاسی اختلافات کی بنا پر حکومت سے الگ ہوکر 30 نومبر 1967 کو پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت اور روٹی کپڑا مکان کے نعرے نے آمر ایوب خان کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔
1965 کی جنگ میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر جب ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت کو للکارتے ہوئے ببانگ دہل کہا تھا کہہ م ایک ہزار سال تک بھارت سے جنگ جاری رکھیں گے ۔1965 کی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صرف پاکستان میں ہی نہیں، بلکہ پاکستان کے باہر بھی اس قدر مقبول ہوگئے کہ جس کا تصور بھی ان دنوں ممکن نہیں تھا۔ بعد ازاں تاشقند معاہدہ ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو کے لہجے اور تقریروں سے یہ صاف محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس سے خوش نہیں ہیں۔ ان دنوں عام پاکستانیوں کا خیال تھا کہ پاکستان کی شہ ر گ  کشمیر پر کوئی خفیہ معاہدہ ہو چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا کہ1965 کی جنگ ایک ایسا سنہری موقع تھا کہ جس سے فائدہ اٹھا کر کشمیر کے ایک بڑے حصے کو آزاد کرایا جاسکتا تھا، یہ وہ دن تھے جب پاکستان کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو جو ایوب کابینہ میں وزیر خارجہ تھے، انہیں اللہ تعالی نے جو قابلیت اور ذہانت عطا کی تھی، اس کی ایک معمولی سی جھلک اس دوران دیکھنے کو ملتی ہے ، جب انہوں نے ایوب خان کی حکومت کے خلاف عوام کی بڑھتی ہوئی نفرت کو تیزی سے بھانپا اور وزارت خارجہ کے عہدے سے مستعفی  ہو گئے۔
ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ذوالفقا رعلی بھٹو میں بھی تھا، لیکن انہوں نے قوم کو جو فکر دی، جو فلسفہ دیا بالخصوص غریبوں کو جینے کا جو حوصلہ اور ولولہ دیا، وہ کوئی دوسرا حکمران نہیں دے سکا۔ 
ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے ایوان سے نکل کر جب عوام میں آئے تو قوم نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ وزارت خارجہ سے استعفی دینے کے بعد راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر ذوالفقار علی بھٹو لاہور جانے کے لئے پہنچے تو وہاں عوام کا جمِ غفیر تھا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح راولپنڈی سے لاہور تک پھیل گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی تمام پیشکشوں کو  ٹھکرا کر بذریعہ ٹرین لاہور کے لئے روانہ ہوگئے ہیں۔ اگر اس وقت ذوالفقار علی بھٹو ایوبی آمریت سے خوفزدہ ہو جاتے تو شاید پیپلز پارٹی کبھی عوامی جماعت نہ بن پاتی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر ہزاروں کی تعداد میں زندہ دلان لاہور نے پرجوش نعروں سے ذوالفقار علی بھٹو کا زبردست استقبال کیا بعد ازاں لاہور سے لے کر لاڑکانہ تک ہر ریلوے اسٹیشن پر ذوالفقار علی بھٹو کا، عوام نے بڑے جوش و خروش سے استقبال کیا۔1970 کے عام انتخابات میں مغربی پاکستان  میں پیپلز پارٹی کو بھرپور کامیابی حاصل ہوئی مگر ملک دو لخت ہوگیا۔ بھٹونے بطور دنیا کے واحد سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اقتدار سنبھالا،پھر 1971 سے 1973 تک پاکستان کے صدر ہے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
پی پی پی کا اساسی انتخابی منشور 1970کی تاریخ کی بے مثال دستاویز ہے۔ اس منشور کو لکھنے والوں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اور حالات کی صدا پر غور کرکے پاکستانی قوم کو ایک انقلابی اور نظریاتی پروگرام دیا۔ منشور دینے والا انمول اور نایاب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت میں پہلے ہی عوام کے دلوں میں گھر کرچکے تھے۔ 1970کے انتخابی منشور میں پہلی بار محروم اور بے زبان طبقات مزدور، کسان، محنت کش عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس انقلابی منشور کے بنیادی اصول روٹی کپڑا اور مکان، طبقاتی جدوجہد، استحصال کا خاتمہ، زرعی اصلاحات، مزدور اصلاحات، اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام تھے۔ 1965سے 1970تک عوام میں پڑھنے کا شوق بہت تھا لہذا پی پی پی کے اساسی منشور کی لاکھوں کاپیاں تقسیم ہوئیں اور ان کو شوق و امید کے ساتھ پڑھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور انقلابی منشور نے پی پی پی کو فتح سے ہمکنار کیا۔ پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں نے پی پی پی کے منشور سے فیض حاصل کیا اور سیاستدان بھٹو صاحب کی تقریریں سن کر ولولہ انگیز عوامی خطاب کا فن سیکھتے رہے۔
16دسمبر1971 میں نامساعد حالات میں بھٹو نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی انہوں نے ایک تھکی ہاری اور شکست خوردہ قوم کی رہنمائی کی، انہوں نے بچے کھچے پاکستان کو صرف 6سال میں مستحکم اور مضبوط اور تیسری دنیا کا ایک انقلابی ملک بنا دیا۔ انہوں نے نہایت پامردی ہمت اور بلند حوصلگی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔
 وزیراعظم بھٹو شہید کا عہد حکومت 20دسمبر1971 سے 4جولائی 1977 تک محیط تھا، انہوں نے ملکی ترقی کا سفر پیچھے سے شروع کیا اور صرف چھ سال کے قلیل عرصے میں اسے بام عروج تک پہنچا دیا۔ ملکی ترقی وکمال کے بہت سے منصوبے شروع ہوئے اور پایہ تکمیل کو پہنچے۔ مملکت خداداد کے تمام کلیدی ادارے بھٹو کے عہد حکومت میں ہی تشکیل پائے۔ ان منصوبوں میں سرفہرست پاکستان کا جوہری پروگرام پاکستان سٹیل ملز معیشت کی بحالی تعلیمی اداروں کا وسیع جال، میڈیکل کالجز، زرعی اصلاحات انگریزی خطابات کا خاتمہ، محنت کشوں کا تحفظ، عوامی سیاسی شعور کی بیداری اور افرادی قوت کی بیرون ملک برآمد شامل ہیں۔ ان کے دورحکومت میں ہی مملکت کو ایک متفقہ آئین 1973 نصیب ہوا، ان کا ایک انمٹ اور زریں کارنامہ ہے۔ 90سالہ قادیانی فتنہ بھی آپ کے دورحکومت میںختم ہوا۔قادیانی آئین پاکستان کی رو سے غیرمسلم قرار پائے، آئین میں مسلمان کی متفقہ تعریف شامل کی گئی صدر وزیراعظم اور دیگر تمام کلیدی عہدوں کیلئے مسلمان ہونا ضروری قرار پائے۔ ختم نبوت ؐکے اقرار کو ہر کلیدی عہدے کے حلف نامے میں شامل کیا گیا، ملک عزیز میں پہلی بار شناختی کارڈ کا اجرا کیا گیا، عوام کو پاکستانی شناخت دی گئی، الغرض ملکی تعمیر وترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔
 قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو  بین الاقوامی امور پر دسترس رکھتے تھے،خارجہ امور کے بہترین ماہر تھے، وہ صرف تیس سال کی عمر میں پاکستان کے وزیر خارجہ بن گئے۔ ذہانت ومتانت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ایسا ذہین شخص پاکستان کو آج تک نہیں مل سکا۔ ماہر سیاست دان اور قادر الکلام خطیب تھے، لاکھوں انسانوں کے اجتماع سے گھنٹوں خطاب کرتے، انہوں نے متعدد بار پاکستان کی نمائندگی کی۔ چین ایران انڈونیشیا اور عرب ممالک سے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کا از سر نو آغازکیا، امریکہ چین تعلقات کو بہتر بنانے میں خصوصی کردار ادا کیا، پاک چین لازوال دوستی کا آغاز انہی کے عہد میں ہوا۔ مسلم امہ کی یک جہتی کیلئے انتھک کوششیں کیں،1974 میں لاہور  میںدوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا پہلا اور آخری کامیاب انعقاد کرایا۔ اس کے بعد اسلامی سربراہی کانفرنس کا ایسا انعقاد آج تک نہ ہو سکا۔
5 جولائی 1977 کو جب ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا تو اس وقت تک ذوالفقار علی بھٹو نے ملکی حالات اپنے حق میں کر لئے تھے، انہوں نے ملک کی سیاسی جماعتوں کے رہنماں سے مذاکرات کے نتیجے میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ قومی حکومت تشکیل دے کر معاملات کو سلجھانے میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں، لیکن انہیں اتنی مہلت ہی نہیں دی گئی۔۔جنرل ضیا الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور قتل کے الزام میں مقدمہ چلا کر 4 اپریل 1979 کو انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، پانہیں جس خاموشی سے 3 اور 4 اپریل کی درمیانی رات پھانسی دی گئی اور بعد ازاں خاموشی سے نو ڈیرو میں سپردخاک کیا گیا۔
 قائد عوام کے کروڑوں چاہنے والے آج بھی ہیں اور ان کے مخالفین بھی ان کے مزار پر جا کر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہر سال 4 اپریل کو ملک بھر سے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نوڈیرو جمع ہوتی ہے اور اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ شہید بھٹو نے جمہوریت ، وفاقیت کی مضبوطی اور عوامی نمائندہ اداروں کی بالا دستی کی جو جنگ لڑ ی ہے اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ بھٹو کی شہادت سے PPPاور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ قیادت کے اس خلا کو بے نظیر بھٹو نے پُر کیا۔ وہ پاکستان کے عوام کی لیڈر بن گئی اور 1988 کے انتخابات میں مسلمان ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو امر کرنے میں جو کردار محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ادا کیا اور پاکستان پیپلزپارٹی کو عوامی جماعت بنانے  میں اسے کبھی  فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

ای پیپر دی نیشن