اصغر علی شاد
Shad_asghar@yahoo.com
کون نہیں جانتا کہ اپنے قیام کے روز اول سے پاکستان کی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک سے بالعموم اور اپنے ہمسایوں سے خصوصی طور پر دوستانہ اور مساوات پر مبنی تعلقات استوار کئے جائیں اور اس ضمن میں اسے بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی، مگر بدقسمتی سے ہندوستان کی صورت میں ہمیں ایک ایسا ہمسایہ میسر آیا جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ۔ خاص طور پر افغانستان کے حوالے سے بھارتی حکمرانوں کی ہمیشہ سے ایک مخصوص روش رہی ہے۔ وہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی ظاہری طور پر تو افغانستان کی دوستی کا دم بھرتا رہا لیکن عملی طور پر صورتحال ہمیشہ اس کے برعکس رہی۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بھارت ان چند ممالک میں شامل تھا جس نے سقوط کابل کے فی الفور بعد افغانستان میں اپنے سفارتی مشن بند کئے، کابل اور دہلی کے درمیان پروازیں معطل کیں اور افغان حکومت کے ذریعے بینک پیمنٹ کی ادائیگی پر بھی پابندی عائد کر دی۔ مبصرین کے مطابق کیا اس سب کے چلتے افغان عوام واقعی دہلی سرکار پر کسی قسم کا بھروسہ کر سکتے ہیں؟گویا
تم بھلا کیا نئی دنیا کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے، ہمیں چلنے کے لئے
حالیہ دنوں میں ہندوستانی اور افغان میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے نئی پراپیگنڈہ مہم شروع کی گئی ہے، جس کے تحت پاک افغان سرحد پر آمد و رفت کے دوران پاکستانی اداروں کی افغان باشندوں کیساتھ بدسلوکی کے من گھڑت قصے سنائے جا رہے ہیں۔ یہ مہم واضح طور پر ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کے ایما پر شروع کی گئی ہے جس کا مقصد افغان شہریوں کے دلوں میں پاک مخالف جذبات پیدا کرنا ہے۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ افغان سرحد پر پاکستان کے اس وقت پانچ کراسنگ پوائنٹس ’’ چمن، طورخم، خرلاچی، غلام خان اور انگور اڈہ ‘‘ فعال ہیں ، ان کراسنگ پوائنٹس سے روزانہ 13 ہزار سے زائد افراد کی آمد و رفت ہوتی ہے جن میں پیدل شہری، مریض، سیاح ، ٹرانسپورٹر وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یوں ماہانہ طور پر لگ بھگ 3 لاکھ 85 ہزار افراد آتے جاتے ہیں جبکہ تجارتی قافلے اس کے علاوہ ہیں۔ کم وسائل کے باوجود پاکستان نے ان کراسنگ پوائنٹس پر 100 سے زائد کائونٹرز بنا رکھے ہیں تا کہ اتنی بڑی تعداد میں افراد کی آمد و رفت کا سلسلہ روانی سے چلتا رہے، ان میں سے 79 کائونٹرز تو محض چمن اور طورخم پر قائم ہیں چونکہ وہاں آمد و رفت کا بہائو سب سے زیادہ ہے۔
یہ امر بھی کسی تعارف کامحتاج نہیں کہ حکومت پاکستان نے اس سرحدی آمد و رفت کے حوالے سے آئی بی ایم ایس ( Integrated Border Management System ) فعال کیا جس کے تحت ویزہ اور پاسپورٹ کے ذریعے آنا جانا ممکن ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان انسانی ہمدردی کے تحت افغان مریضوں، صحافیوں، خواتین اور تاجروں کو ’’ تذکرہ‘‘ دستاویز پر بھی آنے جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں آنے والے یہ باشندے یہیں رہتے ہوئے اپنے قیام کی مدت میں توسیع کرا سکتے ہیں۔ یوں کیا کسی دوسرے ملک کی افغانستان کیساتھ ایسی سرحدی آمد و رفت ہے جو پاسپورٹ کے بغیر بھی آنے جانے کی اجازت دے دیتا ہو؟ سرکاری اعدا د و شمار کے مطابق ہر ماہ پانچ سے چھ ہزار افغانیوں کو مخصوص وجوہات کی بنا پر داخلے کی اجازت دینے سے معذرت کی جاتی ہے، اور انہی میں سے چند اشخاص کا استعمال کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔
دوسری جانب سبھی جانتے ہیں کہ افغانستان سے ہمدردی کے دعوے میں زمین آسمان کے کلابے ملانے والی دہلی سرکار نے یہ جانتے ہوئے کہ ہزاروں افغان طلبا بھارتی یونیورسٹیوں پر انحصار کرتے ہیں، 15 اگست 2021 کے بعد سے انکے ویزے منسوخ کر دیئے جبکہ پاکستان نے اپنی انسان دوستی کی روایت کو برقرار رکھتے پہلے سے موجود افغان طلباء کے علاوہ 4500 مزید مفت وظائف کی پیشکش کی تھی۔ اس تناظر میں صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ اس وقت 73 ہندوستانی جامعات میں 14000 کے قریب افغان طلبا نے داخلے لے رکھے ہیں لیکن دہلی سرکار نے 2500 مزید طلبا کو بھارت آنے سے روک دیا ہے۔
دوسری طرف یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بھارت میں زیرتعلیم افغان طلباء کو یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ بھارتی حکام اور عوام انھیں ’’منشیات فروش‘‘ اور ’’ دہشت گرد‘‘ قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور یہ معاملہ اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ بھارت میں چند ماہ قبل افغانی سفیر ’’ فرید مہمندزئی‘‘ کو بھی کہنا پڑا کہ ’’ کسی افغان شہری نے کسی دوسرے ملک میں کوئی بڑا دہشتگردانہ حملہ نہیں کیا لہذا ان طلباء پر غیر ضروری شبہ کرنے سے گریز کیا جائے‘‘۔ مبصرین نے اس صورتحال کو انسانی حقوق کی بدترین پامالی قرار دیتے کہا ہے کہ بھارت سرکار نے 2022-23 کے آئندہ تعلیمی سال کیلئے 950 افغان طلبا کو سکالرشپ مہیا کی تھیں مگر یہ تمام طلبا وہی ہیں جو طالبان حکومت کے قیام سے پہلے سے ہندوستان میں زیر تعلیم ہیں۔ چند ماہ قبل ہی بھارت نے افغانی کرکٹر ’’ اصغر افغان‘‘ کو انڈین ویزہ جاری کرنے میں محض اس وجہ سے تاخیر کی کہ موصوف کی پاسپورٹ پر پاکستانی ویزہ کی مہر لگی ہوئی تھی جبکہ اس کے برعکس حکومت پاکستان نے افغاستان کے کرکٹ سکواڈ کو ستمبر 2021 میں سری لنکا میں ہونے والی ون ڈے سیریز کیلئے خصوصی طور پر ویزے جاری کئے تھے کیونکہ وہ افغانستان کی داخلی صورتحال کی وجہ سے پروازوں میں سوار ہونے سے قاصر تھے۔ ان حالات میں افغان شہریوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ہندوستان ان کیساتھ کر کیا رہا ہے اور وہ اس شعر کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں
یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کر سکوں
آنکھیں نہیں رہیں یا تماشہ نہیں رہا
امید کی جانی چاہیے کہ نہ صرف عالمی برادری بلکہ خود طالبان حکومت بھی اس تشویشناک صورتحال کی جانب خاطر خواہ ڈھنگ سے توجہ مرکوز کرے گی۔