علی اصغر عباس
4، اپریل1979ء کو مستقل لاہور کا ساکن ہونے پر پاک ٹی ہاؤس آنا جانا لگا تو وہاں بیٹھنے والے ادبی جنات میں سے اکثریت اپنی اپنی جگہ شاہِ جنات کا درجہ رکھتی تھی۔ان میں سے آج کل درجنوں ہال میں پڑی کرسیوں سے اٹھ کر ٹی ہاؤس کی دیواروں پہ ٹنگے فریموں کے شیشوں میں جاسجے ہیں جہاں سے کھل جا سم سم کہنے پر بھی جنبش نہیں کرتے۔ان میں اب ایک اور فریم کا اضافہ ہونے جارہا ہے۔امجد الام امجد۔جو کبھی ٹی ہاؤس کی کسی نہ کسی میز پر خالد احمد،نجیب احمد،روحی کنجاہی،عطا قاسمی،گلزار وفا چوہدری،ضیائ بٹ،عقیل روبی،قائم نقوی،اجمل نیازی وغیرہم کے ساتھ براجمان علمی و ادبی گفتگو کے ساتھ ساتھ لطیفوں کی پھلجھڑیاں چھوڑنے میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔احمد ندیم قاسمی کے منفرد ادبی رسالے ماہنامہ فنون کے ساتھ گہری ادبی وابستگی رکھنے والے بیشتر حضرات دیگر ادبی دھڑوں کی طرف سے طنزاً' 'فنونیے '' بھی کہے جاتے تھے مگر یہ سارے زندہ دل فنونیے اس لقب کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔اسی اعزاز نے ان کی اکثریت کو قومی سطح پر عطا ہونے والے اعزازات کا حق دار بھی ٹھہرایا۔ امجد اسلام امجد دیگر فنونیوں سے قدرے مختلف یوں تھے کہ انہیں کرکٹ کے کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا اور زمانہ طالب علمی میں باقاعدہ کرکٹر تھے اور قومی سطح پر کھیلنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر بوجوہ ایسا ممکن نہ ہوا تو جامعہ پنجاب سے اردو ادب میں گولڈ میڈل او ررول آف آنر کے ساتھ ماسٹر کرنے کے بعد درس و تدریس کی طرف آئے تو کالج کی کرکٹ ٹیم کے انچارج کی حیثیت سے اپنا کھیل کا شوق پورا کرتے رہے۔
اپنے ہم عمر ادبی لوگوں میں سے شاید وہی ایک ایسے استاد تھے جنہوں نے اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کیا اور ہمیشہ وقت پر کلاس لینے پہنچ جاتے تھے وگرنہ اکثریت تو اپنی ناموری کے زعم میں مبتلا کالجوں میں آتی ہی نہیں تھی اور جو آتے انہیں ان کے دیگر مشاغل ہی پڑھانے نہیں دیتے تھے۔امجد اسلام امجد شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ کلاسیک ادب پڑھنے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور اپنے مطالعہ سے قارئین فنون کو فیضیاب کرنے کے لئے باقاعدگی کے ساتھ مضامین لکھا کرتے تھے جو ''نئے پرانے'' کے نام سے شائع ہوئے تو بہت سے قارئین ادب کو سیریاب کرگئے۔امجد اسلام امجد سنجیدہ ادبی قارئین کے لئے تحقیقی مواد پر مبنی مضامین لکھتے تھے تو شعری ذوق کے حامل قارئین کے لئے شعری تخلیقات سے سامانِ راحت کرتے۔نظم و غزل میں ان کا قلم یکساں روانی کے ساتھ سطحِ قرطاس پر جولانیاں بکھیرتا تھا۔ وہ دوستوں ،عزیزوں،رشتے داروں سمیت سبھی انسانوں سے محبت کرتے تھے اور محبت ہی ان کی شاعری کو مغلوب کئے ہوئے تھی۔اس لئے ان کی نظمیں ''محبت کی نظمیں'' کہلاتی ہیں جس کے تتبع میں بہت سے نئے لکھنے والوں نے محبت کی شاعری کو موضوع بناکر قبول عام میں اپنا حصہ بقدر جثہ بٹورا مگر کوئی بھی امجد اسلام امجد جتنی مقبولیت نہ حاصل کرپایا۔فیض اور فراز کے ہوتے ہوئے مشاعروں میں اپنا رنگ جمانا کار آسان نہیں تھا مگر امجد اسلام امجد نے چوکھا رنگ جمایا جو ان بڑوں کی رخصتی کے بعد انہی سے مخصوص ہوکر رہ گیا۔
نئے شعرائ میں سے بہت سوں کو گمان تھا کہ وہ پیدائشی طور پر ہی باون گزے شاعر ہیں اس لئے وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے مگر مشاعروں میں امجد اسلام امجد کی موجودگی انہیں کینڈے میں کئے رکھتی تھی۔دیکھتے ہیں امجد اسلام امجد کی جہانِ فانی سے رخصتی خبطِ عظمت میں مبتلا کتنے شعرائ کو کینڈے سے نکالتی ہے۔
امجد اسلام امجد کو کچھ لوگوں نے نظم کے حوالے سے ن م راشد،احمد ندیم قاسمی اور مجید امجد کی قطار میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے ایسا کرنے والوں نے محض اپنے شکوہ مطالعہ کا رعب جمانے کی کوشش کی ہے جبکہ ان سب شعرائ کے سنجیدہ قارئین جانتے ہیں کہ شعرائ کی اس کہکشاں کے سارے ستارے اپنے الگ الگ مداروں میں اپنی چھب دکھلاتے تھے۔یہ سب مظاہر ادب کائناتِ شعر و ادب میں یگانہ روزگار تھے۔ امجد اسلام امجد سے میرا ذاتی تعلق نہ ہونے کے برابر تھا۔ادبی محفلوں میں کبھی کبھار سامنا ہوتا تو بڑے بھائیوں کی نسبت سے ان کی شفقت میسر آتی وگرنہ ان کے ساتھ بیٹھ کر مکالمے کا شرف حاصل نہ کرسکا۔چند ایک مشاعروں یا ادبی محفلوں میں ان کے ساتھ گذرے وقت کی چند یادیں البتہ یادگار ہیں جن میں ایک کو بزرگ برادر عطائ الحق قاسمی نے یادگار بنا دیا۔ہوا یوں کہ ایک مشاعرے میں شرکت کے موقع پر میں نے امجد بھائی سے کنگھی مانگی تو انہوں نے ہنستے ہوئے کنکھی مجھے دیتے ہوئے کہا بڑے شرارتی ہو مجھ سے کنگھی مانگتے ہو میں نے عرض کیا وہ اس لئے کہ ایک تو آپ کے پاس سے کنگھی ملنا یقینی ہوتا ہے دوسرا فائدہ یہ کہ کنگھی صاف بھی ہوتی ہے۔اس پر وہاں موجود لوگوں پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور عطا ئ الحق قاسمی تو یہ لطیفہ لے اڑے اور اسے اپنے کالم کے ذریعے ہی نہیں بلکہ منہ زبانی بھی دنیا بھر میں پھیلا دیا۔
یوں تو فنون گروپ احمد ندیم قاسمی کی وفات حسرت آیات سے ہی بکھر کے رہ گیا تھا مگر پھر بھی عمران منظور اور نعمان منظور نے خالد احمد کی محبت سے دمکتے ستاروں کے جھرمٹ کو بکھرکر راکھ ہونے سے بچالیا۔مگر اجل کو شاید فنون کے بعد بیاض سے بھی کوئی کد ہوگئی ہے جو خالد احمد،نجیب احمد،شفیق سلیمی،یوسف حسن،قائم نقوی کے بعد اب امجد اسلام امجد کو بھی اپنے جلو میں لئے عازمِ بہشت ہوگئی۔ جانے کس رو میں امجد نے کہا تھا'' دل کے دریا کو تو اک روز اتر جانا ہے۔۔۔اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے۔۔۔۔اور وہ روضہ رسول پر حاضری دے کر جب ثابت کرچکا کہ وہ بے سمت نہیں چلا تو واپسی پر حالتِ نیند میں ہی دل کے دریا کے اترنے پر گھر لوٹ گیا۔اپنے اصلی گھر۔۔۔خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔