رمضان المبارک: نیکیاں کمانے اور گناہوں سے بچنے کا مہینہ

ڈاکٹر سبیل اکرام 
رمضان المبارک رحمتوں ، برکتوں اور فضیلتوں والا مہینہ ہے۔ یہ اخوت ، محبت ، رحمت ، برکت ، ایثار اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔ رمضان المبارک اپنے دامن میں رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کی عبادات کا خلاصہ اگر بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا: اس مہینے میں اللہ کی بندگی کی جائے اور مخلوق ِ خدا کی خدمت کی جائے ۔ یہ بات معلوم ہے کہ رمضان کا مہینہ سال میں ایک بار آتا ہے۔ یہ مہینہ اچھی عادات اپنانے اور بری عادات سے چھٹکارا پانے کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے تعلقات مظبوط کرنے کا۔ یہ مہینہ ہے کہ اس میں وہ تمام چیزیں حفظ کر لی جائیں جو دوسرے مہینوں میں حفظ نہیں کی جاسکتی ہیں۔ضروری ہے کہ اس مہینے میں ایسے اخلاق، اچھی عادات اور ایمان افروز معمولات اپنا ئے جائیں جو اس سے پہلے آپ کے اندر موجود نہ تھے۔ اپنی زبان کو پابند کیا جائے اپنی نگاہوں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی جائے۔ اپنے جسم کی حفاظت کی جائے اور اپنی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے۔ یہ مہینہ ہے مغفرت ، رحمت اور جہنم کی آگ سے آزادی کا۔
اب سوال یہ ہے کہ آپ رمضان کے دوران اپنی پوشیدہ قوتوں کو کیسے اجاگر کیا جائے۔ خود کواچھے اخلاق وکردار کاعادی کیسے بنایا جائے۔ بری عادات سے چھٹکارا کیسے پایا جائے اور رمضان کو اپنی زندگی کا بہترین رمضان کیسے بنا یا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک کو اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط کرکے، زیادہ سے زیادہ عبادات بجا لاکر ، صدقہ وخیرات کر کے ، نوافل ادا کرکے اور مخلوق ِ خدا کی خدمت کرکے بہتر سے بہترین بنایا جاسکتا ہے۔مخلوق خدا کی خدمت یہ ہے کہ ہم سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ اپنی ذمہ داری کااحساس کرے۔اچھا مسلمان اور اچھا شہری بننے کا عہد کرے ، لوگوں کیلئے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرے ، ان کی مشکلات اور تکلیفوں میں ساتھ دے ،سچ بولنے کا اور جھوٹ سے باز رہنے کا عہد کرے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے یہاں رمضان المبارک میں لوگ دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ جیسے ہی رمضان قریب آتا ہے دکاندار اشیائے خوردونوش کے مانے ریٹ بڑھانا شروع کردیتے ہیں، جھوٹ بول کر اور جھوٹی قسمیں اٹھا اٹھا کر اپنا مال بیچتے ہیں اور پھر جیسے جیسے رمضان گزرتا چلا جاتاہے اشیائے خوردونوش اور عام استعمال کی اشیا کے ریٹ بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں عید کے قریب تو دکاندار دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو لوٹتے اور الٹا لٹکا کر کند چھری سے ان کی کھال اتارتے ہیں۔
اس کے برعکس ہم یورپ میں دیکھتے ہیں کہ جب ان کے مذہبی تہوار آتے ہیں تو وہاں کے دکاندار اور ڈیپارٹمنٹ سٹور اشیائے خوردونوش اور دیگر استعمال کی اشیا کے ریٹ کم کرکے اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ غیر مسلم ہیں جبکہ ہم مسلمان ہیں اللہ کو مانتے اور رسول مقبولﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور رمضان المبارک میں روزے بھی رکھتے ہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں جھوٹ بولنے ، دھوکہ دینے ، ذخیرہ اندوزی کرنے اور ناجائز منافع کمانے سے منع کیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم سے کوئی دکاندار ہے تو وہ مسلمان ہونے کی لاج رکھے، ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دے ، ناجائز منافع خوری اور ناجائز دام وصول کرنے سے باز رہے۔دھوکہ نہ کرے ، جھوٹ نہ بولے ، اشیائے صرف کے مناسب ریٹ وصول کرے، اپنے ملازمین اور سٹاف سے اچھا سلوک کرے۔
 بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر مسئلے کے حل کا ذمہ دار وقت حکومت کو ہی قراردیا جاتا ہے جبکہ مہذب ملکوں میں حکومتیں عوام کے تعاون سے ہی چلتی ہیں لوگ عوامی سطح پر خود بھی مسائل حل کرتے ،ناجائز منافع خوری اور اشیائے خورد ونوش میں قیمتوں میں بے جااضافہ سے باز رہتے ہیں پاکستان دنیا کاواحد ملک ہے جہاں عوام خود اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے اور ہر بگاڑ کا ذمہ دار حکومتوں کو ہی ٹھہراتے ہیں جس سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔ تاہم استعمال کی کچھ بنیادی اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جیسا کہ پٹرول ، بجلی اور گیس ہے۔ پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتیں جس طرح سے بڑھ رہی ہیں اس سے یوں لگ رہا ہے کہ حکومت عوام کے زندہ درگور کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ رمضان المبارک رحمتوں ، برکتوں ، سعادتوں اور فضیلتوں والا مہینہ ہے یہ نیکیاں سمیٹنے اور مخلوق کی خدمت کرنے کا مہینہ ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مہینے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے ، جبکہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور ناکام ہوچکی ہے پریشان حال عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اب تو لوگوں کیلئے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ نہ حکمران اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں اور نہ ہی عوام الناس ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں تھیں یہ کمیٹیاں کسی حد تک فعال بھی تھیں۔ مہنگی اشیا فروخت کرنے والے دکانداروں کو پکڑتیں اور جرمانے بھی کرتی تھیں۔ اب پرائس کنٹرول کمیٹیاں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ ان کا کہیں نام ونشان بھی نہیں ، یہ کمیٹیاں اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہیں۔ بلاشبہ یہ حکمرانوں کی نالائقی، نااہلی اور مجرمانہ غفلت ہے اس غفلت پر ہمارے حکمران اللہ کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔ حکومتی سطح پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ شتر بے مہار ہوچکا ہے۔ دکانداروں کے دلوں میں نہ خوف خدا رہا ہے اور نہ ہی قانون کا ڈر ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں رمضان المبارک کی آمد سے قبل اشیائے خوردنوش اور دیگر استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے دکاندار دونوںہاتھوں سے لوگوں کو لوٹتے اور ان کی کھال اتارتے ہیں۔ہمارے حکمران پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ان کے اپنے کردار اس سے مختلف ہیں۔ وہ اس لیے کوئی عملی اقدامات بھی نہیں کرتے ہیں۔ اب جبکہ ہم پر رمضان المبارک کا مقدس مہینہ سایہ فگن ہے ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عہد کریں۔اسلامی فلاحی ریاست میں عوام خوشحال ہوتے ہیں ، عدل وانصاف ہوتا ہے، قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے جہاں مسلمانوں سمیت دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کی جان ومال اور عزت وآبرو محفوظ ہوتی ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست میں بے حیائی ، مہنگائی ، ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کیا اور جرائم کا قلع قمع کیاجاتا ہے۔ عوام کے لیے تمام بنیادی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں اور امن وامان کا دور دورہ ہوتا ہے۔ اسی طرح عوام الناس کو بھی چاہئے کہ رمضان المبارک میں اپنی زندگیاں ، کردار اور معاملات بدلنے کا عہد کریں ، دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کریں ، ہمیشہ سچ بولنے اور دین پر کاربند رہنے کا عہد کریں اور بات سمجھیں کہ رمضان المبارک نیکیاں کمانے اور گناہوں سے بچنے کامہینہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن