نگہت لغاری
گزشتہ ہفتے 23مارچ پاکستان ڈے کے حوالے سے صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب کو اپنے اپنے پیشے کے ہنرمندوں اَور فنکاروں کو تمغہ ٔ حسنِ کارکردگی پہناتے دیکھا ، لیکن جب انہوں نے ملک کی ایک فنکارہ انجمن بیگم کو بھی تمغہ ٔ حسنِ کارکردگی پہناتے دیکھا تو صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب کے اعلیٰ نظریات اَور اْن کی صاف ستھری شخصیت کی جو تصویر میرے دِل و دماغ میں تھی وہ چکنا چْور ہوگئی ، میری اْن سے کوئی رْوبْرو ملاقات نہیں نہ مَیں اْن کے بارے میں کچھ زیادہ جانتی ہوں، لیکن مَیں اْن کی اِس کارکردگی پر کیوں غمزدہ ہوئی۔ اْس کی تفصیل یہ تھی۔ مَیں پچھلے سال جب ڈنمارک میں تھی تو ٹی وی پر صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب 6ستمبر کے حوالے سے تقریر کررہے تھے۔مَیں نے انہیں تفصیل سے شاید اْسی دن سناتھا اْن کی تقریر اِس قدر پْر جوش ایمان اَفروز اَور پاکستان کے تمام اداروں بشمول افواج ِ پاکستان کے بارے میں اْمید اَور فخر پر محیط تھی کہ مَیں نے اْن کی تقریر کے ختم ہوتے ہی شدت ِ جذبات میں ایوانِ صدر کا فون ملایا تاکہ اپنے تازہ تازہ جذبات پسندیدگی اْن تک پہنچا سکوں۔جذباتی کیفیت میں یہ بھول گئی کہ پاکستان اَور ڈنمارک کے اوقات میں 5 گھنٹوں کا فرق ہے۔ فون ایک آپریٹر نے اْٹھایا مَیں نے جلدی سے کہا ،پلیز ڈاکٹر صاحب سے مَیں نے بات کرنی ہے اْس نے کہا میڈم پاکستان میں اِ س وقت رات کے 12بج رہے ہیں‘ آپ اصرار کرتی ہیں تو مَیں اْن کے ملٹری سیکرٹری سے آپ کی بات کروا دیتا ہوں۔شاید غیرملک سے ہونے والے ٹیلی فون کی وجہ سے ملٹری سیکرٹری صاحب فوراً لائن پر آگئے۔ ہیلو کے ساتھ ہی کہا السلام علیکم ،مَیں ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر شہریار بول رہا ہوں، صدر صاحب تو اِس وقت آرام کررہے ہیں کوئی کام ہے تو مجھے بتائیں؟ جذباتی کیفیت نے شاید میرے اندر کا بچہ جگا دیاتھا ،مَیں نے بالکل بچکانہ انداز میں کہا ، قائد ِ اعظم تو اس وقت تک جاگ رہے ہوتے تھے۔بہرحال اگر وہ آرام کررہے ہیں تو کوئی بات نہیں ،مَیں نے ابھی ابھی اْن کی 6 ستمبر والی تقریر سنی ہے ،مَیں بہت خوش بیٹھی ہوں اَور اپنی یہ خوشی اْن تک پہنچانا چاہتی تھی کیونکہ یہاں وطن سے دْور بیٹھے بیٹھے وطن سے ہر وقت ہی جو حالات کے گرم تھپیڑے لگتے ہیں۔ بریگیڈئیر صاحب نے میری افسانوی بات سننے کے فوراً بعد فون بند کردیا۔ مَیں بھی اپنے کاموں میں لگ کر ذرا پْرسکون ہوگئی اَور پھر سو گئی۔
صبح پاکستانی وقت کے مطابق دس بجے اَور ڈنمارک کے وقت کے مطابق 5 بجے فون کی کی گھنٹی بجی مَیں چونکہ رات کو دیر تک لکھنے پڑھنے کی وجہ سے دیر بعد یعنی 10-11بجے اْٹھتی ہوں ،اِس لیے تقریباً نیند میں ہونے کی وجہ سے فون اٹینڈ نہیں کیا، ویسے بھی پاکستان سے بعض اوقات صبح صبح ہی کچھ فون آجاتے ہیں لوگ اپنے کام بتاتے ہیں۔کسی کی نوکری ،کسی کاتبادلہ کسی طالب علم کا داخلہ یامعافی فیس وغیرہ میرے پاس کوئی سرکاری یا غیر سرکاری عہدہ نہیں نہ مَیں سیاستدان اَور نہ ووٹوں کی خاطر لوگوں کے کام کرتی ہوں۔ مَیں اپنے پروردگار اَور اپنے ضمیر کی اَسیر ہوں ،اِس لیے اپنے ملک کے بہت سے لوگوں کے بہت سارے کام کرتی رہتی ہوں۔ جب دوسری دفعہ فون بولا تو مَیں نے کسی حد تک اخلاقی اسیری کے تحت فون اْٹھا لیا۔ دوسری طرف سے آواز آئی،نگہت لغاری بول رہی ہیں نا (شاید میری نیند سے میری آواز تبدیل کردی تھی ) مَیں نے کہا جی ہاں ! کہنے لگے صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب لائن پر ہیں بات کریں،خوشی حیرت اَور فخر نے اْن کی وہی صاف ستھری اعلیٰ شخصیت کی تصویر اْچک کر میرے اندر فکس کردی اَور مَیں پْر سکون ہوگئی ،کچھ اَور باتوں کے بعد کہا ڈاکٹر صاحب شکر ہے پاکستان کی جیب میں ایک آپ جیسا کھراسکہ موجود ہے۔
اَب آتی ہوں اصلی کہانی کی طرف۔میرے خیال میں فن اَور فنکاروں کو پَرکھنے والے ججز جو فن اَور فنکار کو پَرکھنے کی ایک کسوٹی ہوتے ہیں وہی کسوٹی ہی کھوٹی ہے ،ورنہ وہ یہ کیسے نہیں جانتے تھے کہ انجمن بیگم جب سے فلم انڈسٹری میں انجمن آراء ہوئی ہیں،فحاشی اَور مخرالاخلاقی کا ایک ایسا سکہ بند Trend متعارف کروایا تھا کہ بہت سے شریف خاندانوں کی لڑکیاں انجمن کو ہی Idealizeکرکے گھروں سے بھاگ گئی تھیں۔ قندیل بلوچ جس کو اپنے ہی گھروالوں نے قتل کردیا تھا جب وہ اِس انڈسٹری میں آئی اَور اْس کا انٹرویو کیا گیا تو اْس نے بتایا تھا کہ میری آئیڈیل انجمن ہیں کیونکہ اْنہوں نے فن کو جرأت اَور اصلیت دی ہے۔بہرحال میرے خیال میں ڈاکٹر عارف علوی صاحب یہ سب کچھ اپنی سادگی ہی میں کرگئے ہیں اگر اْنہوں نے انجمن کا پنجابی فلم کا کوئی ایک ڈانس بھی دیکھا ہوتا تو وہ تمغہ حسن ِ کارکردگی انجمن کے گلے ڈالنے کی بجائے اپنے پیروں تلے روند دیتے یااْسی تمغے کی ڈور اْس کے گلے میں ہی کھینچ دیتے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
اللہ آئندہ ڈاکٹر صاحب کو ایسے دشمنوں سے محفوظ رکھے جنہوں نے جان بوجھ کو ڈاکٹر صاحب کی روشن شخصیت کو گرہن لگانے کی سعی کی ہے۔