4؍اپریل ۔ شہید جمہوریت

4؍اپریل کو پاکستان کے منتخب وزیراعظم ،پی پی پی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔ ملکی تاریخ کا یہ سیاہ ترین باب ہے کہ اس عدالتی قتل کو 44سال ہو گئے ہیں لیکن عوام کا محبوب اور دلیر لیڈر آج بھی سیاسی اُفق پر موجود ہے۔ ان کا نام ختم نہیں کیا جا سکا اسکے برعکس ان کو ختم کرنے والی قوتیں خود مٹ گئی ہیں، مکافاتِ عمل کا شکار ہو کر فنا ہو گئی ہیں۔
جناب بھٹو کو سزائے موت کے بعد کال کوٹھڑی میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انکے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا گیا لیکن پاکستان اور عالم اسلام کے محبوب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے بڑی بہادری اور استقامت سے روا رکھے گئے ظلم و ستم کو برداشت کیا اور آمریت کے آگے جھکنے کی بجائے زندہ جاوید ہو گئے۔ ان کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوا۔
17ا؍اگست 1988ء کو مکافاتِ عمل کا خوفناک واقعہ رونماہوا۔ فوجی آمر جنرل ضیاء اپنے ساتھیوں سمیت اس حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ ملک کے طول و عرض میں پارٹی کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پارٹی کارکنوں نے ۹۰کلفٹن کے گیٹ پر جمع ہو کر خوشی کے اظہار میں مٹھائی تقسیم کرنا شروع کر دی۔ یہ سن کر بے نظیر بھٹو شہید نے پارٹی کے کارکنوں کو یہ کہہ کر مٹھائی کی تقسیم سے منع کر دیا کہ کسی کی موت پر مٹھائی تقسیم نہیں کی جاتی۔یہ شرفِ انسانیت کا ایک اعلی عمل اور بی بی شہید کی شخصیت کا خوبصورت پہلو تھا۔جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل میں روا رکھی گئی ناانصافی کے خلاف جئے بھٹو کا نعرہ دراصل صدائے احتجاج ہے کہ پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین اس خونِ ناحق کے بعد امر ہو گئے، اور انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے والی قوتیں ، ایک جابر آمر خود وقت کی صلیب پر چڑھ کر فنا ہو گئے۔ قدرت کا یہ انصاف نشانِ عبرت تاریخ میں محفوظ ہے۔
18مارچ1978ء کو لاہور ہائیکورٹ کے سربراہ نے ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں بھٹو شہید کو سزائے موت کا حکم سنایا تو پارٹی کارکنوں پر ستم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ عوامی مزاحمت کو کچلنے کے لیے جبروتشدد کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ کارکنوں نے جوروستم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مارشل لاء کے مظالم کا جرأت مندی سے سامنا کیا۔ کوڑے کھائے ،جیل کاٹی اور آمر مطلق کیخلاف بے مثال جنگ لڑی‘ غریب کارکنوں کیخلاف سفاکانہ پُرتشدد کارروائی روزمرہ کا معمول بن گئی۔ ستم بالائے ستم صحافی اور دانشور بھی اس ستم کا نشانہ بنے۔
اس اذیت ناک دورِ ستم میں بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو شہید کو قید کیا گیا۔ گھرو ں میں نظربند کرکے قیدِ تنہائی کا عذاب نازل کیا گیا۔ ان پر بدترین جسمانی اور ذہنی تشدد کیا گیا۔ ظلم کی انتہا یہ تھی کہ ۴؍اپریل ۱۹۷۹ء کو مسلح پہرہ میں بھٹو صاحب کو ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا اور بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو آخری دیدار کی اجازت نہ دی گئی۔
مولوی مشتاق حسین نے18؍اپریل 1978ء کو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔تو دنیا بھر میں شدید ردعمل ہوا۔ مختلف ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ جلوس نکالے اور مظاہرہ کیے۔ لندن ان مظاہروں کامرکز تھا۔ انکی قیادت میرمرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو نے کی، دیگر افراد بھی اس احتجاج میں شریک ہوئے۔ اور دنیاکی توجہ مبذول کرائی، ممتاز اخبارات اور جرائد نے اس کی مذمت کی اور رائے عامہ کو ہموار کیا۔ اور پاکستان کے آمر کے بدترین چہرہ سے دنیا کو روشناس کرایا۔ اور بھٹو صاحب کی موت کی سزا کو سیاسی انتقام سے تعبیر کیا۔برطانیہ کے مقتدر جریدہ States manنے 21 مارچ 1978ء کے اداریہ میں لکھا۔
’’کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پیپلزپارٹی کے راہنما کو اپنا بہت بڑا مخالف سمجھتاہے ۔ جنرل ضیاء نے سابق وزیراعظم کو سیاسی طور پر ختم کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں وہ سب ناکام ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسٹر بھٹو کے اقتدار پر فاتحانہ واپسی کے امکان کو روکنے کیلئے کئی بار انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں۔کینیا کے اخبار نورنٹو لگار نے اس فیصلہ کو دہشت گردی قرار دیا۔ 
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سیاسی دہشتگردی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کوئی مقدمہ نہیں تھا۔ جنرل ضیاء نے راستے میں مزاحم ہونے والے ایک سویلین راہنما کو جان بوجھ کر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جنرل ضیاء اور ان کے ساتھیوں نے یہ تصور کر لیا تھا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو او ران کے عہد کا خاتمہ کر دیا گیا ہے لیکن تاریخ اس مفروضہ پر مسکرا رہی تھی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جس دلیری اور بہادری سے بدترین حالات اور مظالم کا سامنا کیا اس کی بدولت تاریخ میں زندہ و جاوید ہو گئے۔ آج 44 سال بعد بھی ان کے نام کے ترانے گائے جا رہے ہیں اورعدالتی قتل کی مذمت کی جا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو آزادانہ انتخابات کے ذریعہ اقتدار میں آئے تھے وہ عظیم راہنما تھے۔ انہوں نے عوام کے وقار کو بلند کیا اور قومی یک جہتی کو مستحکم کیا۔ دسمبر 1971ء میں بھارت کے ہاتھوں شکست نے قوم کو بُری طرح تباہ کر دیا تھا۔جنرل ضیاء کا بھٹو کے خلاف قاتلانہ اقدام بہت بڑا ظلم ہے ،اسے انصاف کا قتل قرار دیا گیا تھا، یہاں اس امر کا اعادہ بجاطور پر درست ہے کہ جناب بھٹو شہید جو کہ آج بھی زندہ ہیں اور عوام کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں اور جئے بھٹو کا نعرہ پاکستان کی فضائوں میں گونج رہا ہے۔ ملک کے کونے کونے سے پاکستانی ان کے مزار پر جا کر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
 مئی 1989ء میں ،میں دہلی گیا وہاں جنا ب بھٹو کے قریبی دوست پیلومودی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ راجیہ سبھا کے ممبر پیلومودی نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے بتایا کہ جنوبی ہندوستان میں پاکستان کے مقتول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو کئی شاعروںنے منظوم انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے انکے دفتر میں موجود ایک شاعر نے کلام بھی سنایا۔
جناب پیلومودی کے ہاں اکثر شاعروں اور سیاستدانوں کا ہجوم ہوتا تھا اور ان کی مجلس کا اہم ترین موضوع جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سحرانگیز شخصیت تھا۔ جناب پیلو مودی نے بتایا کہ وہ اپنی کتاب ’’زلفی میرادوست‘‘ میں مزید تین چار ابواب کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں جس کا عنوان ’’ زلفی میرے دوست کا خاتمہ ‘‘ پر ہوگا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن