کافی دنوں سے کچھ لکھ نہیں پائی کیونکہ لکھنے کے لیے قلم کا آزاد ہونا بہت ضروری ہے یا پھر اس کو نیوٹرل کہہ لیں، اور پھر سیاست میں کچھ ایسی بے سرو سامانی کا عالم چل رہا ہے کہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لکھا جائے۔ پنجاب اور کے پی کے الیکشن کی بے یارو مد د گار تاریخوں کے بارے لکھا جائے یا پھر مختلف عدالتوں میں اس وقت کی اپوزیشن ممبران کی تاریخوں پہ تاریخوں کے بارے لکھا جائے یا نئے آنے والے چیف جسٹس کی تاریخ اور موجودہ کی رخصتی پر لکھا جائے۔یہ سب تاریخیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے یا یہ کہی لیں کہ ایک الجھی ڈوری ہے جو کہ نپے تلے قدموں سے حکومتی لیڈران اپنے تعین سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں یا اس کو ترتیب میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔پر سوال یہ ہے کہ کیا ان تاریخوں تک وہ کامیابی سے پہنچ پائیں گے؟
جب سے خان صاحب نے کسی ارسطو کے کہنے پر اسمبلیاں توڑی ہیں اور الیکشن تاریخ کا تقاضا شروع کیا ہے، حکومتی ارکان کی سوٹڈ بوٹڈ آنیاں جانیاں دیکھ کر اور مسلسل بیرونی مما لک کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانے کی کوششوں سے میں نے اندازہ کیا کہ اس اندازِ بے گانہ کا مطلب یہ ہے کہ ابھی الیکشن کی طرف جانے کا وقت نہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ڈوبی ہوئی معیشت کی کشتی اور بھی ہچکولے کھانے لگی اس پر آئی ایم ایف کی اٹکھیلیاں اور ن لیگ کے وزیر خزانہ کی آنکھ مچولیاں۔اعلیٰ عدلیہ کے کہنے پر الیکشن کمیشن کے نئے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تاریخ تو دے دی اور پھر بھولے بھالے منہ سے 20 ارب بھی مانگ لیے اب کوئی پوچھے کہ ’اس سادگی پے کون نہ مر جائے اے خدا‘۔
حکومت پوری دنیا سے ریلیف مانگنے میں مصروف ہے جو کچھ بھی جمع ہو رہا ہے اب اس کو نئے الیکشن میں جھونک دیں و ہ بھی صرف دو صوبائی اسمبلیوں کے؟اور پھر اس کے بعد قومی اور باقی اسمبلیوں کے الیکشن اکتوبر میں ہوں؟ الیکشن نہ ہوگئے چھوٹے بچوں کا کھیل تماشا ہوگیا۔ اس وقت ملک کسی قسم کے تجربوں کا متحمل نہیں ہے، ابھی نئے الیکشن سے پہلے بہت سے کام ہونا باقی ہے۔سب سے پہلے تو یہ کہ جس طرح بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر عزت دار لوگوں کو ایک جماعت سے دوسر ی جماعت میں شامل کروایا گیا وہ نہ ہوسکے۔ ادارے سیاست دانوں کے ساتھ ایک باہمی عزت ملکی وقار اور سالمیت کو مد نظر رکھ کر چلیں۔ سیاست دانوں کو بھی اپنا مقام واپس لینا ہوگا اور ہر بار مدد کے لیے اداروں کی بے ساکھیوں پر چل کر ایوانوں میں آنے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔ نئے الیکشن میں نااہل اور کٹھ پتلیاں عام پر مسلط نہ ہوں اس کی روک تھام کرنا ہوگی۔
سب سے اہم مسئلہ حکومت میں آنے کے بعدنیب کے ذریعے انتقامی کارروائیا ں ہے۔ جب سے پی ٹی آئی ارکان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ہے تو ایسا لگنے لگا ہے کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو اسی طرح اپوزیشن کے ارکان کو بری طرح انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کو کاری قرار دیں کر ان پر کیسز بنائے گئے اور کئی ایسے کیسز جن میں سزائے موت بھی ہوسکتی تھی۔آج صرف 4 سال کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان کے ساتھ وہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ن لیگ کی خصلت میں انتقام ہے یہ موقع ملنے پر حساب ضرور چکتا کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ نئی آنے والی لیڈر شپ بہتر مثال قائم کرے لیکن فی الحال مریم بی بی کا انداز انتقامی اور کینہ پرور ہے۔یہ کردار کی بہت ہی منفی خاصیتیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئر مین البتہ اس کے متضاد نظر آتے ہیں۔ خان صاحب ویسے تو عمر میں سینئر لیڈر شپ کے برابر ہے لیکن فیصلہ کرنے میں عجلت، ضد اور انا پسندی چھوٹے بچوں والی ہے۔
باقی اس وقت عدالتیں عظمیٰ کے ہر فیصلے پر کالے بادل چھا گئے ہیں اور فیصلوں کے ترازو کے پلڑوں کا ایک طرف جھکاؤ زبانِ زد عام ہے جس نے کئی ماضی کے زخموں کو بھی کھول دیا ہے، اس کو بھی اب سدھارنا ہوگا۔ ریاست کے تمام ستون ہل گئے ہیں۔ ہماری بقا اس میں ہے کہ تحمل سے اس مشکل صورتحال سے نمٹا جائے۔ سیاست دانوں پر جو چور، ڈاکو،لٹیرے،بناکر پارلیمان کا وقار مجروح کیا گیا ہے۔ افواج پاکستان کو نیوٹرل ہونے پر جانور اور جس طرح ادارے کی تضحیک کر کے اس کو عوام کی نظروں میں گرایا گیا ہے اور عدلیہ کے فیصلوں پر سنگ تراشی۔ ان سب معاملات کو ہمیں خود ہی سدھارنا ہے۔ ہماری غلطیاں، ہمارے میرٹ کے بغیر فیصلے، اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کے کام میں دخل اندازی، طاقت کی حرص، انفرادی کوتاہیوں نے پورے پورے ادارے تباہ کر دیے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن اس میں وقت درکار ہوگا اور اس وقت میں ہمیں اس ملک اور عوام کی بھلائی کے لیے اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر مل بیٹھنا ہوگا۔