چوہدری منور انجم
نقطہ نظر
پاکستان کی تاریخ میں بھٹو شہید جیسا لیڈر دوبارہ پیدا نہیں ہوا
چار اپریل 1979پاکستان کی تاریخ کا ایک منحوس دن تھا جسے تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔جس دن اس ملک کے پہلے جمہوری اور منتخب وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو ایک عدالتی فیصلے کے زریعے شہید کر دئے گئے ۔ عدالتی قتل کے مرکزی کرداروں میں سے تین کرداروں( ایک ڈکٹیٹر، جج اور ایک مذہبی جماعت کے رہنما ) کا تعلق جالندھر سے تھا جنہوں نے ڈکٹیٹر کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کو مظبوط بنیادیں فراہم کرنے والے شخص کی پھانسی کی راہ ہموار کی آج ان کا کوئی نام لیوا بھی موجود نہیں جبکہ بھٹو صاحب تاریخ میں امر ہیں ان کا نام آج بھی عزت اور احترام سے ،لیا جاتا ہے وہ آج بھی کروڑون دلوں کی دھڑکن ہیں۔
ان کی پھانسی کی سزا کو عدالتی قتل کہا گیا جس کا بعد ازاں کئی ججوں نے اعتراف بھی کیا کہ یہ سزا عدالتی تاریخ پر ایک بد نما داغ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات تسلیم کی تھی کہ بھٹو کوپھانسی دینے کا فیصلہ دباو کا نتیجہ تھا، نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا۔ نسیم حسن شاہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھٹو کے مقدمہ میں شک کا فائدہ انھیں ملنا چاہیے تھا۔ نسیم حسن شاہ کے اس اعترافی بیان کے بعد بھی پاکستان کی عدلیہ نے اپنے اوپر سے اس الزام کو دھونے کی کوشش نہیں کی اور آج قدرت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور فطرت کے قوانین کو بھگت رہے ہیں۔
بھٹو صاحب پاکستانی تاریخ کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے جو نہ صرف ہر دلعزیز تھے بلکہ کسی سازش ذریعے برسراقتدار نہیں آئے تھے بلکہ عوام کی محبت انہیں اقتدار میں لیکر آئی تھی انہوں نے اپنی حکومت کا آغاز ایک عوام پسند رہنما کی حیثیت سے کیا۔ان کی شخصیت کا سحر ہی تھا کہ 1970 کے الیکشن میں عوام نے روایتی سیاسی بتوں اور جاگیرداروں سرمایہ داروں اور وڈیروں کے مقابلے میں آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ عوام کے زریعے انقلاب لانے والے بھٹو کو ترجیح دی۔ذوالفقار علی بھٹو شہید دنیا کے ان کرشمہ ساز لیڈروں میں شمار ہوتے تھے جنہیں عوامی محبت کے ساتھ شہرت اور اقتدار دونوں ملے اور انہوں نے عوام کی زندگی بھی بدل دی انہیں شعور ہی عطا نہیں کیا بلکہ اپنے حق کا دراک بھی کرایا کہ ظالموں سے کیسے حق لیا جاتا ہے ۔
بھٹو صاحب کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو شہید جیسا عظیم لیڈر پیدا نہیں ہوا جو جنگ ہار کر بھی اپنی قوم کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہتے تھے کہ ہماری بیرونی طاقت ، ہماری اندرونی طاقت میں نظر آئے گی۔۔! وہ عوام کو طاقت کا سر چشمہ سمجھتے تھے جس کے زریئعے انقلاب لایا جاسکتا ہے۔بھٹو صاحب اس ملک کی واحد شخصیت تھیں جن کی سماجی سیاسی گھریلو زندگی کے ہر ہر لمحے پر ان گنت کتابیں ، مضامین فیچرز لکھے گئے اور مسلسل لکھے جارہے ہیں ان کی زندگی اور کارناموں کے بغیر پاکستان کی تاریخ نہ صرف ادھوری ہے بلکہ نامکمل بھی ہے۔ ہمیں ان کی المناک شہادت کے ساتھ آج کی نسل کو ان کے کارناموں سے بھی آگاہ کرنا چاہیے تاکہ آج کا باشعور نوجوان جان سکے کہ قومی اور عوامی لیڈر کس طرح کی خوبیوں کا حامل ہوتا ہے جو قوم کو اٹھانے کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ ذیل میں ان کے مختصر کارنامے ۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ وہ یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا، لاس اینجلس میں 1947ءسے 1949ءتک زیرِ تعلیم رہے، انہوں نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، بارکلے سے 1950ء میں بی۔اے کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ، برطانیہ سے ایم۔اے کی ڈگری 1953ءمیں حاصل کی۔اسی سال انہوں نے لنکنز اِن، لندن سے بار ایٹ لاء کی۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز وکالت سے اور اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا اقوامِ متحدہ کے وفد میں بطورِ رکن شمولیت سے کی۔ ذوالفقار علی بھٹو عام انتخابات کے ذریعے پہلے منتخب وزیرِ اعظم بنے۔
بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہیں ملک میں سیاسی ترقی کو عمل آگے بڑھا تے ہوئے جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ ملک کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بلوچستان کو صوبے کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کو خودمختار حیثیت دی اور شمالی علاقہ جات میں اصلاحات کر کے وہاں کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کئے ۔دنیا کے 77 ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔مسلم بلاک کے قیام اور اسلامک ورلڈ بینک کے قیام کے لئے اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ غریب اور محکوم طبقے کی خوشحالی اور تحفظ کے لئے زرعی اصلاحات اور سول سروسز اصلاحات کیں۔ اپنی پارٹی کے نعرے ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے غریب عوام کے لئے 5 مرلہ سکیم کا اجراءکیا۔انہوں نے مزدور یونینوں کو بحال کیا اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے چارٹر پر دستخط کئے۔ کامرہ ایروناٹیکل اور ہیوی میکینکل کمپلیکس کی تعمیر کروائی۔ انہوں نے نازک ترین حالات میں اقوامِ متحدہ کے سامنے پاکستان کا مو¿قف جس جرات سے پیش کیا۔پاکستان کو عالمی منڈیوں تک رسائی دلوانے کے لئے پورٹ قاسم، ا سٹیل مِل اور شاہراہِ قراقرم جیسے بڑے منصوبے تعمیر کروائے۔
ان کا سب سے برا کارنامہ ، 1973ءمیں ملک کو پہلا متفقہ ائین دینا تھا،ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے مالامال کرنے کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی بنیاد رکھی۔اقوام متحدہ میں جس طرح بھٹو صاحب نے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا کوئی اور لیڈر آج تک ویسے نہیں کر سکا۔ 5 فروری کو یوم کشمیر کے طور پر منسوب اور شملہ معاہدہ انہی کے کارنامے ہیں۔
بھاری، صنعتوں ،بینکوں اورتعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر سرمایہ داروں کے چنگل سے آزاد کرنا ذوالفقار علی بھٹوکے بڑے کارناموں میں شامل ہیں۔زرعی اصلاحات، سستی ٹرانسپورٹ ،خوراک بنیادی مراکز صحت کا قیام اور غریبوں کے لئے علاج کی مفت سہولت، تعلیم اور علاج کے لئے بجٹ کا 43فیصد مختص کرنابھی ذوالفقار علی بھٹوکےکارنامے ہیں ایک قوم کے طور پر یاد رکھے جانے کے حوالے سے قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے قانون سازی اور دیگر اصلاحات کا سہرہ بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے سرجاتا ہے۔
ان کے دور حکومت میں ملک اور عوام کمی ترقی کے لئے کئے جانے والے کاموں اور کارناموں کی یہ مختصر تفصیل ہے ان کے کارناموں کو گوگل کریں ان پر لکھی گئی کتابوں کالموں کو پڑھیں تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اتنے مختصر عرصے میں مخالفت کے باوجود کوئی شخص اتنے کام کیسے کرسکتا ہے یہی وہ باتیں ہیں جو ہمیں آج کی نوجوان نسل کو بتانی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی ملکی خدمات تعمیر اور ترقی کا سلسلہ کبھی رکا نہیں آپ بھٹو اور بی بی شہید کے بعد آج بھی دیکھیے آصف علی زرداری کا دور حکومت دیکھ لیں اور پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی دیکھ لیں کہ کس طرح انہوں نے 58 ٹو بھی کا خاتمہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو خود مختار کیا اٹھارویں ترمیم کے زریعے صوبوں کو خود مختار بنایا، اس کے علاوہ ایک ڈکٹیٹر کو کس حکمت عملی سے باہر نکالا، اور پھر یہی دیکھیے بلاول بھٹو نے جب وزرات خارجہ کا قلم دان سنبھالا اس وقت ماضی کی ایک حکومت کے سربراہ کی وجہ سے پاکستان کا امیج بری طرح مجروع ہو چکا تھا ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا انہوں نے اپنی والدہ اور نانا کی سیاسی تربیت کامظاہرہ کرتے ہوئے بیرونی ممالک کے طوفانی دورے کئے سربرہان مملکت سے ملاقاتیں کیں پاکستان کا امیج بڑھانے کے ساتھ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بھی بچایا۔ غرض یہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ ترقی سے شروع ہو کر ترقی کرنے کی جد وجہد پر ہی ختم ہوتی ہے جسے آج کی نسل کو بتانا ضروری ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لئے اہم پیغام یہی ہے کہ آئیے آج عہد کریں کہ بھٹو صاحب کے ویژن اور مشن کو آگے بڑھانے کے لئے صدر آصف علی زرداری اور چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے شانے سے شانہ ملا کر ملک کے ہر گلی کوچے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو مظبوط بنانے کے لئے اپنا کرادار ادا کریں۔
پاکستان کی تاریخ میں بھٹو شہید جیسا لیڈر دوبارہ پیدا نہیں ہوا
Apr 04, 2023