عترت جعفری
چالیس سال سے زیادہ بیت گئے، جب بھی 4اپریل کا دن آتا ہے تو ذہن میں یادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں،1979 ءکے بعد سے اب تک جمہوریت اور جمہوری رویوں کے حوالے سے بہت زیادہ تبدیلی نہیں آ سکی مگر اتنا ضرور ہوا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے آمریت کے ہاتھوں بھینٹ چڑھ جانے اور ان کی جمہوریت کے لئے قر بانی کا ادراک ہمیشہ موجودرہے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنی 51سال زندگی میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ان کی مثال ملنا مشکل ہے ،پی پی پی کی بنیاد رکھنا ،اور اسے مختصر مدت میں ملک کی سب سے بڑی جماعت میں بدل دینا، مشکل میں گھرے اور شکست خوردہ پاکستان کی قیادت کو سنبھالنا اور اسے نئے پاکستان کی صورت دینا، آئین اور اس کے تحت اداروں کا قیام،فلاح وبہبود کا نظام اور ان سب سے بڑھ کر ملک کے عوام کو امور مملکت کا حصہ بنا کر اسے جو شعور دیا ، خوفزدہ قوتوں نے انہی اصلاحات کے خلاف سازش کرکے ان کو راستے سے ہٹا دیا ۔مگربھٹو کا نظریہ اور سوچ آج بھی ملک پر راج کر رہی ہے اور بھٹو کے اس قافلے کا علم آج بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ ہیں ہے ۔
ذولفقار علی بھٹو شہید کے بعداب تک گذرنے والی چار دہائیوں میں پست قامت عمارتوں کی جگہ بلند و بالا پر شکوہ ایوان بن گئے، کچی سڑکوں کی جگہ موٹرویز نے لے لی ہے، اداروں میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں، گھر ،گھر بجلی آگئی، منتخب ایوانوں میں گھن گرج سنائی دیتی ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا نے سمندر کی شکل اختیار کر لی، سونامی اپنے ہی آشیانوں کو بہانے لگے،مگر ملک میں ان سب تبدیلیوں کا جب بھی ذکر ہو گاذولفقار علی بھٹو کے بغیر ہمیشہ نامکمل رہے گا۔ 4 اپریل 1979ءکایوم سیاہ ہماری قومی زندگی پر ہمیشہ ایک د ھبہ رہے گا۔اس روز پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، پھانسی ایک ایسے مقدمہ میں دی گئی جس کو بنانے والے مشکوک ،جس کے گواہ مشکوک اور جس کو سننے والے مشکوک اور فیصلہ بھی مشکوک تھا۔پاکستان کی عدالتی تاریخ کا یہ واحد مقدمہ ہے جس کو بطور حوالہ آج تک استعمال نہیں کیا جاتا۔ذوالفقار علی بھٹو شہید کو جسمانی طور ختم کرنے والے یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے شہید کو نابود کر دیا اور اس ملک میں اپنے نام کی تختیاں لگا لی ہیں ، مگر ایسا نہیں ہوسکا، جانے والا محض ایک نام نہیں ایک نظریہ تھا،جس کی آب تاب40 سے قائم ودائم ہے ۔
لیڈر کیسے ایک بکھرے ملک کو سنبھال لیتے ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اس کی زندہ مثال ہیں، بکھرے ہوئے لوگوں، اور سہمی ہوئی خلقت کو سہارا دینے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کو لات مار کر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی زنجیر نے باقی ماندہ پاکستان کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کیا اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھ کر ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا ۔ یہ بدقسمتی ہے کہ وہ محسن کشوں کا نشانہ بنے، جو عالمی استبدادی قوتوں کے گماشتے تھے، اور پاکستان کو بدلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔آج کے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کے نشان جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں، 'نیا پاکستان' کے نعرے ہمارے ملک کی سیاسی زندگی میں بارہا سننے کو ملتے ہیں، مگر اس کے لگانے والے تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بنے ۔وہ خودچلتے بنے یا انہیں چلتا کر دیا گیا، عوام کا لیڈر نہ بن سکے جو اسے اپنے سر پر بٹھاتے ہیں، جنہیں اوپر سے مسلط نہیں کیا جاتا، ان کے لیے مہم چلا کر امیج کی بلڈنگ نہیں کی جاتی۔ عوام کی زندگی کو بدل دینا بھٹو شہید کا مقصد حیات تھا۔انہوں نے زمین بے آئین کوآئین دیا ادارے دیئے، ملک کو بین الاقوامی دنیا میں وقار دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی انصاف نہیں کیا جا سکا اور ان کے ساتھ بے انصافی کا سلسلہ آج تک جاری ہے،آج جب سارے راز طشت از بام ہو چکے ہیں،ان کو انصاف دلانے کے لئے ایک صدارتی ریفرنس اب بھی عدلیہ میں موجود ہے اور حق و انصاف کے فیصلے کا منتظر ہے۔ شہادت کے بعدان کے مقصد حیات اورنظریہ کو بے نظیر بھٹو نے آگے بڑھایا اور آ ج یہی ذمہ داری بلاول بھٹو زرداری کی ہے تاہم ستر کی دہائی اور آج کے حالات میں بہت فرق آ چلا ہے ،چھ کروڑ آبادی کا پاکستان آج 22 کروڑ کا ملک ہے ۔یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ پی پی پی نئی نسل کو اپنے بانی کے فلسفے ان کی قربانی ، بے نظیر بھٹو کی شہادت،اور جمہوریت کے لئے پارٹی کی ان گنت قربانیوں سے آگاہ کرنے لئے اپنا حق ادا نہ کر سکی ۔آج پی پی پی حکومت میںہے ،اس کے درجن بھر وزیر اور مشیر ہیں،بند کمروں میںبیٹھے رہتے ہیں،عوام سے ملنا پسند نہیں کرتے ،ان کا میڈیا سینٹر ویران پڑا رہتا ہے ۔ شائد یہ سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ بلاول نکلے گا اور ان کو الیکشن میں جیت ملے گی مگر ایسا نہیں ہونے والا،کام کرنا ہوگا کارکنوں کے لئے اپنے بند درواز ے کھولنا ہوںگے۔