نذیر ڈھوکی
ان دنوں سر شاہنواز خان بھٹو بمبئی میں وزیر تھے یہ 1935 کا قصہ ہے جب برطانوی راج تھا، ایک دن گورنر لارڈ برابورن نے سر شاہنواز خان بھٹو کو ان کے صاحبزادوں سمیت کھانے پر مدعو کیا۔ سر شاہنواز خان بھٹو کے بڑے صاحبزادے سکندر علی خان بھٹو سے مصافحہ کرتے ہوئے گورنر لارڈ برابورن بولے شاہنواز خان آپ کا بیٹا بہت خوبصورت ہے تو سکندر علی خان بھٹو نے جواب دیتے ہوئے کہا خوبصورت تو ہمارے گورنر صاحب ہیں اس دوران 8 سال کی عمر والے ذوالفقار علی بھٹو سے رہا نہیں گیا اور یہ فقرہ کہا گورنر صاحب اس لئے خوبصورت ہیں کیونکہ انہوں نے ہمارے خوبصورت ملک کا خون چوسا ہے، جناب ذوالفقار علی بھٹو کا یہ فقرہ سن کر لارڈ برابورن بولے شاہنواز خان آپ کا یہ بیٹا شاعر اور انقلابی بنے گا۔ وہ نسل ابھی تک زندہ ہے جس نے پاکستان بنتے اور ٹوٹتے دیکھا اور اور پھر نیا پاکستان بنتے اور سنورتے دیکھا۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلا عوامی قائد تھا جس نے30 نومبر 1967 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی صرف تین سال میں انہوں نے لوگوں میں سیاسی شعور کے ذریعے سیاست کو محلات سے نکال کر غریبوں کی جھونپڑیوں کے دروازے پر لا کرکھڑا کردیا ۔صرف ساڑھے چار سال کے اقتدار کے دوران انہوںنے عوام کو سوچنے کیلئے شعور، بولنے کیلئے زبان، اورفخر سے جینے کا ڈھنگ سکھایا، اس قلیل مدت کے دوران انہوں نے 1971 کی جنگ کے دوران بھارت کے قبضے میں چلی گئی ہزاروں مربع میل سرزمین بھی واپس لی۔ 90 ہزار فوجی افسران اور جوانوں کو جو بھارت کے جیلوں میں قید تھے کو باعزت رہائی بھی دلوائی۔ ایٹمی قوت کی بنیاد بھی رکھی، قوم کو 1973 کا متفقہ دستور بھی دیا اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرکے ملت اسلامیہ کا باہمی اتحاد بھی قائم کیا، عوام کو پاسپورٹ بنوانے کا نا صرف حق دیا بلکہ پاکستانیوں کیلئے دنیا بھر میں روزگار کے وسائل بھی پیدا کئے ، ٹیکسلا میں ہیوی مشینری کمپلیکس اور ایروناٹیکل کمپلیکس بھی بنایا ، چاروں صوبوں میں کونے کونے پر میڈیکل کالج، کیڈٹ کالج اور یونیورسٹیوں کا جال بچھایا ، پاکستان میں بسنے والی قوموں کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے ادارے قائم کئے اسلام آباد میں لوگ ورثہ بنایا، کراچی میں پورٹ قاسم، اسٹیل ملز کا قیام بھی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا کارنامہ ہے،ملک میں ایٹمی پروگرام کےلئے یورینیم کی ضروریات کے پیش نظر ہر قسم کے دباو¿ اور جبر کے باوجود دوست ملک کے ساتھ تاریخی معاہدہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا مقصد صرف ایٹم بم نہیں ملک کو ایٹمی قوت بنانا تھا۔ وہ ملک میںزراعت ،بجلی کی پیداوار اور طب کے شعبے میں ممکنہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہتے تھے۔ ایک روایت یہ ہے چین کے عظیم لیڈر ماو¿زے تنگ نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے کہا کہ مسٹر بھٹو آپ تیز رفتاری سے جا رہے ہیں تو بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ میرے پاس وقت بہت کم ہے میں جلد از جلد سارے کام نمٹانا چاہتا ہوں ۔
سوال یہ ہے کہ اتنے سارے کارنامے سرانجام دینے کے بعد بھٹو صاحب کے پاس وقت ہی کہاں تھا کہ ایسے شخص کے قتل کا سوچے جس کی کوئی شناخت نہ تھی۔ بھٹو صاحب کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہے ، دینی مراکز منی چینجر کے مرکز بن گئے اقتدار کے لالچی ٹولے نے اپنے وطن کی آزادی اور خود داری کو گروی رکھ کر بدلے میں اقتدار حاصل کیا۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ناانصافی یہ تھی ان پر جس شخص کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا وہ تاحال زندہ ہے عام طور پر قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ میں چلایا جاتا ہے سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں میں اپیل ہوتی ہے مگر بھٹو صاحب کے خلاف قتل کا مقدمہ ہائی کورٹ میں چلایا گیا وہ بھی ایسے چیف جسٹس کی عدالت میں جو بھٹو صاحب سے بغض اور نفرت رکھتے تھے،۔ پھر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے جن ججوں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ان میں سے ایک جج نے ٹی وی چینل پر اعتراف کیا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی غلط تھی وہ معصوم تھے۔ جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ کا اعتراف تو بڑی دیر سے آیا مگر دنیا بھر کے منصفوں نے قائد عوام کو دینے والی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا تھا ۔